صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا -- جنت اس کی نعمتیں اور اہل جنت
14. باب فَنَاءِ الدُّنْيَا وَبَيَانِ الْحَشْرِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ:
باب: دنیا کے فنا اور حشر کا بیان۔
حدیث نمبر: 7197
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ كُلُّهُمْ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ. ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُسْتَوْرِدًا أَخَا بَنِي فِهْرٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَاللَّهِ مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ، إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ "، وَأَشَارَ يَحْيَى بِالسَّبَّابَةِ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ، وَفِي حَدِيثِهِمْ جَمِيعًا، غَيْرَ يَحْيَى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ، وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ أَخِي بَنِي فِهْرٍ، وَفِي حَدِيثِهِ أَيْضًا، قَالَ وَأَشَارَ إِسْمَاعِيلُ بِالْإِبْهَامِ.
عبد اللہ بن ادریس محمد بن نمیر محمد بن بشیر موسیٰ بن اعین اور ابواسامہ اور یحییٰ بن سعید سب نے ہمیں اسماعیل بن ابی خالد سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں قیس نے حدیث سنائی: انھوں نے کہا: میں نے حضرت مستورد (بن شدادقرشی) فہری رضی اللہ عنہ سے سنا: وہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی قسم!آخرت (کے مقابلے) میں دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنی ایک انگلی سمندر میں ڈالے۔یحییٰ نے اپنی انگشت شہادت کی طرف اشارہ کیا۔ پھر دیکھے وہ (انگلی) اس میں سے کیا (نکال کر) لاتی ہے۔" یحییٰ (بن سعید قطان کی روایت) کے علاوہ باقی سب کی حدیث میں (صراحت سے) یہ الفاظ ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ اور حضرت مستورد بن شدادفہری رضی اللہ عنہ سے ابو اسامہ کی حدیث میں بھی (یہی الفاظ ہیں) اور ان کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ (ابو اسامہ نے) اور اسماعیل (بن ابی خالد) نے انگوٹھے کے ساتھ اشارہ کیا۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بنو فہر کے فرد حضرت مستور رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کی قسم! دنیا کی آخرت کے مقابلہ میں مثال بس ایسی ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈال کر نکال لے یحییٰ نے شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کیا پھر دیکھ لے، پانی کی کتنی مقدار اس کے ساتھ لگ کر آئی ہے۔ اسامہ کی حدیث میں ہے اسماعیل نے انگوٹھے سے اشارہ کیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4108  
´دنیا کی مثال۔`
مستورد رضی اللہ عنہ (جو بنی فہر کے ایک فرد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے، اور پھر دیکھے کہ کتنا پانی اس کی انگلی میں واپس آتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4108]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دنیا کی زندگی انتہائی قلیل ہےجب کہ آخرت کی زندگی ابدی ہے جس کی انتہا نہیں۔

(2)
جنت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں اس قدر قیمتی ہیں کہ جنت میں چند انچ خالی زمین کی قیمت دنیا کی تمام دولت اور خزانوں سے زیادہ ہے پھر اس کے محلات اور باغات اور ان میں موجود نعمتیں، پاک باز بیویاں، خدام وغیرہ ان کی قدر وقیمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
خصوصاً دیدار الہی تو ایسی ہے کہ اس کے مقابلے میں جنت کی بڑی نعمت ہیچ ہے۔

(3)
مثال دیکر بیان کرنے سے مسئلہ زیادہ واضح اور قابل فہم ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4108   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2323  
´آخرت کے مقابلے میں دنیا سمندر کے ایک قطرے کی مانند ہے۔`
مستورد بن شداد فہری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی مثال آخرت کے سامنے ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی سمندر کا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2323]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں آخرت کی نعمتوں اور اس کی دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی قدروقیمت اور اس کی زندگی کا تناسب بیان کیا گیا ہے،
یہ تناسب ایسے ہی ہے جیسے ایک قطرہ پانی اور سمندرکے پانی کے درمیان تناسب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2323   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7197  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مطلب یہ ہے کہ دنیا کی مدت اور لذات آخرت کے دوام و ہمیشگی اور اس کی نعمتوں کے مقابلہ میں اتنی ہی بے حقیقت اور بے وقعت ہیں،
جتنا کے دریا کے مقابلہ میں انگلی پر لگا پانی اور یہ مثال بھی درحقیقت صرف سمجھانے کے لیے دی گئی ہے،
ورنہ دراصل دنیا کو آخرت کے مقابلہ میں یہ نسبت بھی نہیں ہے،
کیونکہ یہ دنیا اور اس کی ہر چیز محدود اور متناہی،
یعنی فانی اور عارضی ہے اور آخرت لامحدود اور غیر متناہی،
یعنی دائمی اور ابدی ہے اور ریاضی کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ محدودو متناہی کو لا محدود اور غیر متناہی کے ساتھ کوئی نسبت نہیں دی جا سکتی،
اب اس شخص سے زیادہ محروم اور خسارہ والا کون ہو سکتا ہے،
جو دنیا کو حاصل کرنے کے لیے تو خوب جدوجہد کرتا ہے،
مگر آخرت کی تیاری کی طرف سے بالکل غافل،
بے نیاز اور لاپرواہ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7197