صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا -- جنت اس کی نعمتیں اور اہل جنت
14. باب فَنَاءِ الدُّنْيَا وَبَيَانِ الْحَشْرِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ:
باب: دنیا کے فنا اور حشر کا بیان۔
حدیث نمبر: 7201
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا بِمَوْعِظَةٍ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تُحْشَرُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104، أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام، أَلَا وَإِنَّهُ سَيُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي، فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أَصْحَابِي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ، إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118، قَالَ: فَيُقَالُ لِي: إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ "، وَفِي حَدِيثِ وَكِيعٍ وَمُعَاذ، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ.
وکیع اور معاذ دونوں نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، نیز محمد بن مثنیٰ اور محمد بن بشار نے۔الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں۔کہا: ہمیں محمد بن جعفرنے شعبہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے مغیرہ بن نعمان سے، انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نصیحت آموز خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: "اے لوگو! تم کو اللہ کے سامنے ننگے پاؤں بے لباس بے ختنہ اکٹھا کیا جا ئے گا۔ (قرآن مجید میں ہے): "جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز کیا تھا اسی کو دوبارہ لو ٹائیں گے۔ یہ ہم پر (پختہ) وعدہ ہے ہم یہی کرنے والے ہیں۔"یاد رکھو!مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنھیں لباس پہنایا جا ئے گا وہ ابراہیم علیہ السلام ہوں گے۔اور یاد رکھو!میری امت میں سے کچھ لوگ لائے جائیں گے، پھر انھیں پکڑکر بائیں (جہنم کی) طرف لے جایا جائے گا۔ میں کہوں گا۔ میرے رب! میرے ساتھی ہیں۔تو کہا جا ئےگا۔آپ کو معلوم نہیں انھوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیانئی باتیں نکالی تھیں۔تو وہی کچھ کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) کہیں گے: " میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان کے درمیان رہا جب تونے مجھے اٹھالیا تو ان پر تو نگہبان تھا۔اگر تو انھیں عذاب دے تو بے شک یہ تیرے بندے ہیں اور اگر توانھیں بخش دے تو یقیناً تو ہی بڑا غالب اور بڑا دانا ہے۔ "فرمایا: "تومجھ سے کہا جا ئے گا جب سے آپ ان سے جدا ہوئے تھے۔یہ مسلسل اپنی ایڑیوں پر لوٹتے چلے گئے۔اور وکیع اور معاذ کی حدیث میں ہے: "تو کہا جائے گا۔آپ نہیں جا نتے کہ انھوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا نئی باتیں نکالی تھیں۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے ا بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتےہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نصیحت آموز خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:"اے لوگو! تم کو اللہ کے سامنے ننگے پاؤں بے لباس بے ختنہ اکٹھا کیا جا ئے گا۔(قرآن مجید میں ہے):"جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز کیا تھا اسی کو دوبارہ لو ٹائیں گے۔ یہ ہم پر (پختہ)وعدہ ہے ہم یہی کرنے والے ہیں۔"یاد رکھو!مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنھیں لباس پہنایا جا ئے گا وہ ابراہیم ؑ ہوں گے۔اور یاد رکھو!میری امت میں سے کچھ لوگ لائے جائیں گے،پھر انھیں پکڑکر بائیں (جہنم کی)طرف لے جایا جائے گا۔ میں کہوں گا۔ میرے رب! میرے ساتھی ہیں۔تو کہا جا ئےگا۔آپ کو معلوم نہیں انھوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیانئی باتیں نکالی تھیں۔تو وہی کچھ کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ ؑ) کہیں گے:" میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان کے درمیان رہا جب تونے مجھے اٹھالیا تو ان پر تو نگہبان تھا۔اگر تو انھیں عذاب دے تو بے شک یہ تیرے بندے ہیں اور اگر توانھیں بخش دے تو یقیناً تو ہی بڑا غالب اور بڑا دانا ہے۔ (المائدہ آیت نمبر 170 اور 118) آپ نےفرمایا:"مجھے جواب دیا جائےگا، جب سے آپ ان سے جدا ہوئے تھے۔یہ مسلسل اپنی ایڑیوں پر لوٹتے چلے گئے۔اور وکیع اور معاذ کی حدیث میں ہے:"تو کہا جائے گا۔آپ نہیں جا نتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا نئی باتیں نکالی تھیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2423  
´حشر و نشر کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہو گا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے (الانبیاء: ۱۰۴)، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2423]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے،
یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے،
اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے۔
(الانبیاء: 104)
2؎:
ابراہیم علیہ السلام کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے،
اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا،
اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر انسان کا ایمان وعمل درست نہ ہوتووہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں ر ہا ہو،
کسی دوسری ہستی پر مغرور ہوکر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے،
بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتارہیں،
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔

3؎:
اگر تو انہیں عذاب دے تو یقینا یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقینا تو غالب اور حکمت والا ہے۔
(المائدہ: 118)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2423   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7201  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے لباس حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہنایا جائے گا،
کیونکہ انہیں برہنہ کر کے آگ کے الاؤ میں پھینکا گیا تھا اور یہ ایک جزئی فضیلت ہے،
جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر برتری لازم نہیں آتی،
اس لیے کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔
حدیث کی توضیح و تفسیر پیچھے گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7201