صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا -- جنت اس کی نعمتیں اور اہل جنت
17. باب عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَيِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَيْهِ وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ:
باب: مردے کو اس کا ٹھکانہ بتلائے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان۔
حدیث نمبر: 7213
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، جَمِيعًا عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَلَمْ أَشْهَدْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ حَدَّثَنِيهِ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ، وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ، فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ، قَالَ: كَذَا كَانَ، يَقُولُ: الْجُرَيْرِيُّ، فَقَالَ: " مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ؟ "، فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا قَالَ: فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ؟، قَالَ: مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ؟، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا، فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ "، قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَقَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ "، قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ "، قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، قَالَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ "، قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ".
ابن علیہ نے کہا: ہمیں سعید جریری نے ابو نضرہ سے روایت کی، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی، (ابو نضرہ نے) کہا: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حاضر ہوکر نہیں سنی، بلکہ مجھےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کی، انھوں نے کہا: ایک دفعہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنونجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے، ہم آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک وہ بدک گیا وہ آپ کو گرانے لگا تھا (دیکھا تو) وہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں (ابن علیہ نے) کہا: جریری اسی طرح کہا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان قبروں والوں کو کو ن جانتاہے؟" ایک آدمی نے کہا: میں، آپ نے فرمایا: "یہ لو گ کب مرے تھے؟اس نے کہا: شرک (کے عالم) میں مرے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ لو گ اپنی قبروں میں مبتلائے عذاب ہیں اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم (اپنے مردوں کو) دفن نہ کرو گےتو میں اللہ سے دعا کرتا کہ قبر کے جس عذاب (کی آوازوں) کومیں سن رہا ہوں وہ تمھیں بھی سنادے۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف رخ انور پھیرا اور فرمایا: "آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (تمام) فتنوں سے جوان میں سے ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم فتنوں سے جو ظاہر ہیں اور پوشیدہ ہیں اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حاضر ہوکر نہیں سنی،بلکہ مجھےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کی، انھوں نے کہا: ایک دفعہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنونجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے،ہم آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک وہ بدک گیا وہ آپ کو گرانے لگا تھا (دیکھا تو) وہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں (ابن علیہ نے) کہا: جریری اسی طرح کہا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ان قبروں والوں کو کو ن جانتاہے؟"ایک آدمی نے کہا: میں،آپ نے فرمایا:"یہ لو گ کب مرے تھے؟اس نے کہا:شرک (کے عالم) میں مرے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ لو گ اپنی قبروں میں مبتلائے عذاب ہیں اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم (اپنے مردوں کو) دفن نہ کرو گےتو میں اللہ سے دعا کرتا کہ قبر کے جس عذاب (کی آوازوں)کومیں سن رہا ہوں وہ تمھیں بھی سنادے۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف رخ انور پھیرا اور فرمایا:"آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "(تمام) فتنوں سے جوان میں سے ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم فتنوں سے جو ظاہر ہیں اور پوشیدہ ہیں اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 129  
´عذاب قبر کا اثبات`
«. . . ‏‏‏‏عَن زيد بن ثَابت قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرُ سِتَّةٍ أَو خَمْسَة أَو أَرْبَعَة قَالَ كَذَا كَانَ يَقُول الْجريرِي فَقَالَ: «من يعرف أَصْحَاب هَذِه الأقبر فَقَالَ رجل أَنا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاك فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَاب النَّار فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّه من عَذَاب الْقَبْر قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ . . .»
. . . سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کہ بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار ہو کر تشریف لے جارہے تھے اور ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک وہ خچر بگڑ گئی اور ایسی بدکی، قریب تھا کہ آپ کو گرا د ے ناگہاں اس جگہ پانچ یا چھ قبریں معلوم ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ ان قبر والوں کو تم میں سے کوئی پہچانتا ہے؟ ایک شخص نے جواب دیا: جی ہاں حضرت میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ لوگ کس حال میں مرے تھے؟ یعنی شرک کی حالت میں مرے تھے یا ایمان کی حالت میں مرے تھے۔ اس نے کہا: شرک کی حالت میں مرے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت اپنے قبروں میں آزمائی جاتی ہے اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ تم مردوں کو قبروں میں دفن نہیں کرو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ جو عذاب قبر میں سن رہا ہوں وہ تم کو بھی سنا دے (اور اگر اس عذاب کو تم سن لو تو مردوں کو قبروں میں دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے اس لیے میں تمہارے سنانے کے لیے دعا نہیں کرتا) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تم لوگ آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو یعنی اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تم کو دوزخ کے عذاب سے بچائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرو قبر کے عذاب سے، لوگوں نے کہا: ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں قبر کے عذاب سے یعنی اللہ تعالیٰ ہم کو قبر کے عذاب سے بچائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے پناہ مانگو ظاہری اور باطنی فتتوں سے، لوگوں نے کہا: ہم اللہ سے پناہ چاہتے ہیں ظاہری اور باطنی فتنوں سے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ طلب کرو، لوگوں نے کہا: ہم اللہ سے پناہ طلب کرتے ہیں دجال کے فتنہ سے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 129]

تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 7213]

فقہ الحدیث:
➊ عذاب قبر اسی زمین پر ہوتا ہے جسے قبر کے قریب والے زمین والے جانور سنتے ہیں۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عالم الغیب نہیں ہیں بلکہ یہ صرف اللہ ہی کی صفت خاصہ ہے۔
➌ اگر عام لوگوں کو عذاب قبر کا نظارہ ہو جائے تو میت کو دفن کرنے سے جاہل مارے خوف کے دور بھاگیں گے اور اہل علم بھی عام لوگوں کے مردوں سے دور رہیں گے۔
➍ عذاب قبر ایمان بالغیب میں سے ہے۔
➎ قبر سے مراد زمینی گڑھا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 129   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7213  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برزخ کے عذاب کو جن و انس سے مخفی رکھا ہے،
ان کو اس کا پتا بالکل نہیں چلتا،
لیکن ان کے علاوہ دوسری مخلوقات کو اس کا کچھ ادراک و احساس ہو جاتا ہے،
بنو نجار کے باغ میں جن لوگوں کی قبریں تھیں،
ان پر عذاب ہو رہاتھا،
آپ جس خچر پر سوار تھے،
اس کو اس کا احساس ہوا اور اس پر اثر پڑا لیکن آپ کے اصحاب ورفقاء کو اس کا کوئی احساس نہیں ہوا اور آپ اس عذاب کو سن رہے تھے،
اس لیے آپ نے ساتھیوں کو فرمایا،
''قبر کے عذاب کی جو کیفیت اللہ تعالیٰ نے مجھ پر منکشف فرمادی ہے،
اگر اللہ تعالیٰ وہ کیفیت تم پر منکشف کردے اور تمہیں بھی مردوں کی چیخ و پکار سنادے تو اس کا خطرہ ہے کہ تمہیں موت سے اتنی وحشت ہوجائے کہ تم ان کو دفن بھی نہ کرسکو،
اس لیے میں اللہ سے یہ دعا نہیں کرتا کہ وہ تمہیں بھی سنا دے،
حقیقت یہ ہے کہ مرنے والوں پر مرنے کے بعد جو کچھ گزرتا ہے،
اگر ہم سب اس کو دیکھ لیں یا سن لیں تو ہم کوئی کام کاج نہ کرسکیں اور دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے،
اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی طرف متوجہ فرمایا،
جن سے بچنے کی ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں دوزخ کے عذاب،
قبر کے عذاب اور ہر قسم کے ظاہری و باطنی کھلے اور پوشیدہ فتنوں سے پناہ دے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7213