صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ -- فتنے اور علامات قیامت
2. باب الْخَسْفِ بِالْجَيْشِ الَّذِي يَؤُمُّ الْبَيْتَ:
باب: بیت اللہ کے ڈھانے کا ارادہ کرنے والے لشکر دھنسائے جانے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7240
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ ، قَالَ: دَخَلَ الْحَارِثُ بْنُ أَبِي رَبِيعَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ، وَأَنَا مَعَهُمَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، فَسَأَلَاهَا عَنِ الْجَيْشِ الَّذِي يُخْسَفُ بِهِ، وَكَانَ ذَلِكَ فِي أَيَّامِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَعُوذُ عَائِذٌ بِالْبَيْتِ فَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ، فَإِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ خُسِفَ بِهِمْ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَيْفَ بِمَنْ كَانَ كَارِهًا؟، قَالَ: يُخْسَفُ بِهِ مَعَهُمْ، وَلَكِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى نِيَّتِهِ "، وَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: هِيَ بَيْدَاءُ الْمَدِينَةِ،
جریر نے عبدالعزیز بن رفیع سے اور انھوں نے عبداللہ بن قبطیہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حارث بن ابی ربیعہ، عبداللہ بن صفوان اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ہم ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں نے اُن سے اس لشکر کےمتعلق سوال کیا جس کو زمین میں دھنسا دیاجائے گا، یہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (کی خلافت) کا زمانہ تھا۔ (ام المومنین رضی اللہ عنہا نے ٓ) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "ایک پناہ لینے والا بیت اللہ میں پناہ لے گا، اس کی طرف ایک لشکر بھیجاجائےگا، جب وہ لوگ زمین کے بنجر ہموارحصے میں ہوں گے تو ان کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔"میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جو مجبور ان کے ساتھ (شامل) ہوگا اس کا کیا بنے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"اسے بھی ان کے ساتھ دھنسا دیا جائے گاالبتہ قیامت کے دن اس کو اس کی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔" اور ابو جعفر نے کہا: یہ مدینہ (کے قریب) کا چٹیل حصہ ہوگا (جہاں ان کو دھنسا یا جائے گا۔)
عبید اللہ بن قبطیہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں حارث بن ابی ربیعہ اور عبد اللہ بن صفوان، ام المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا انھوں نے ان سے اس لشکر کے بارے میں دریافت کیا جسے دھنسا دیا جائے گا اور یہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدکی بات ہے تو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایک پناہ لینے والا بیت اللہ کی پناہ لے گا۔ اس کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا جب وہ لشکری ایک چٹیل میدان میں پہنچیں گے۔ انہیں دھنسا دیا جائے گا۔"تو میں نے پوچھا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو جو لوگ مجبوراًشریک ہوں گے، ان کا کیا بنے گا؟آپ نے فرمایا:"اس کو بھی ان کے ساتھ دھنسا دیا جائے گا۔ لیکن قیامت کے دن اسے اپنی نیت پر اٹھا یا جائے گا۔"ابو جعفر کہتے ہیں اس میدان سے مراد مدینہ کا مقام بیداء ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4065  
´بیداء کے لشکر کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا ذکر فرمایا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! شاید ان میں کوئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی لایا گیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4065]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بڑے جرم کے ارتکاب پر اللہ کا عذاب بعض اوقات مجرموں کو دنیا ہی میں پکڑ لیتا ہے۔

(2)
مجرموں کے ساتھ چلنے والے بھی عذاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔

(3)
قیامت کو سزا صرف مجرموں کو ملے گی، خواہ وہ جرم کا ارتکاب کرنےوالے افراد ہوں یا ان سے کسی نہ کسی انداز سے تعاون کرنے والے یا ان کے جرم کو معمولی سمجھ کر روکنے کی کوشش نہ کرنے والے یا ان کے جرم سے نفرت نہ رکھنے والے ہوں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4065   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2171  
´باب:۔۔۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا ذکر کیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، تو ام سلمہ نے عرض کیا: ہو سکتا ہے اس میں کچھ مجبور لوگ بھی ہوں، آپ نے فرمایا: وہ اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2171]
اردو حاشہ:
وضاحت:
 
1؎:
یعنی دنیاوی عذاب میں تومجبور اوربے بس لوگ بھی مبتلا ہوجائیں گے مگر آخرت میں وہ اپنے اعمال کے موافق اٹھائے جائیں گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2171   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4289  
´باب:۔۔۔۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دھنسائے جانے والے لشکر کا واقعہ روایت کرتی ہیں اس میں ہے: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس شخص کا کیا حال ہو گا جو نہ چاہتے ہوئے زبردستی لایا گیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ بھی ان کے ساتھ دھنسا دیا جائے گا البتہ قیامت کے دن وہ اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المهدى /حدیث: 4289]
فوائد ومسائل:
1) اللہ تعالی کا عذاب جب عمومی انداز میں آتا ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، البتہ انبیاء اور رسل ؑ اور ان کے متبعین کا معاملہ بطور معجزہ اس عموم سے مستثنیٰ ہے۔

2) اضطراروا کراہ یعنی انسان کو کسی ناپسندیدہ عمل پر انتہائی مجبور کردیا جانا۔
۔
۔
۔
شریعت میں ایک معتبر عذر ہے، جس کا فائدہ اگر دنیا میں حاصل نہ ہو سکے تو ان شاءاللہ قیامت کو ضرور ملے گا۔

3) اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4289