صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ -- فتنے اور علامات قیامت
3. باب نُزُولِ الْفِتَنِ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ:
باب: فتنوں کا بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7245
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ أُسَامَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَفَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟ إِنِّي لَأَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ "،
سفیان بن عینیہ نے زہری سے، انھوں نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے قلعوں میں سے ایک قلعے (اونچی محفوظ عمارت) پر چڑھے، پھر فرمایا: "کیا تم (بھی) دیکھتے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟میں تمہارے گھروں میں فتنوں کے واقع ہونے کے مقامات بارش ٹپکنے کے نشانات کی طرح (بکثرت اور واضح) دیکھ رہا ہوں۔"
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قلعوں میں سے ایک قلعہ پر چڑھے، پھر فرمایا:"کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، تم دیکھ رہے ہو؟ میں تمھارے گھروں کے اندر فتنوں کے گرنے کی جگہ اس طرح دیکھتا ہوں، جس طرح بارش کے قطرے گرتے ہیں۔
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7060  
´فتنے بارش کے قطروں کی طرح`
«. . . أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَإِنِّي لَأَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَوَقْعِ الْقَطْرِ . . .»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ: 7060]

فوائد و مسائل
اس حدیث نبوی اور مشرق کی طرف سے اٹھنے والے فتنہ کی احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے:
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرما تے ہیں:
«وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.»
اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ (خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ [فتح الباري: 13/13]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 18