صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ -- فتنے اور علامات قیامت
5. باب هَلاَكُ هَذِهِ الأُمَّةِ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ:
باب: اس امت کا ایک دوسرے کے ہاتھوں ہلاک ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 7260
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ الْعَالِيَةِ، حَتَّى إِذَا مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ دَخَلَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَدَعَا رَبَّهُ طَوِيلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْنَا، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثًا، فَأَعْطَانِي ثِنْتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً، سَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِيهَا "،
عبد اللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں عثمان بن حکیم نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے عامر بن سعد نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کے) بالائی علاقے سے تشریف لائے یہاں تک کہ جب آپ بنو معاویہ کی مسجد کے قریب سے گزرے تو آپ اس میں داخل ہوئے اور وہ رکعتیں ادا فرمائیں۔ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ نے اپنے رب سے بہت لمبی دعا کی پھر آپ نے ہماری طرف رخ کیا تو فرمایا: " میں نے اپنے رب سے تین (چیزیں) مانگیں۔اس نے وہ مجھے عطا فرمادیں اور ایک مجھ سے روک لی۔میں نے اپنے رب سے یہ مانگا کہ وہ میری (پوری) امت کو قحط سالی سے ہلاک نہ کرے تو اس نے مجھے یہ چیز عطا فرمادی اور میں نے اس سے مانگا کہ وہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرے تو اس نے یہ (بھی) مجھے عطافرمادی اور میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ ان کی آپس میں جنگ نہ ہو تو اس نے یہ (بات) مجھ سے روک لی۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ کی بلند بستیوں کی طرف سے تشریف لائے حتی کہ جب بنو معاویہ کی مسجد سے گزرے تو اس میں داخل ہو کر دو رکعتیں پڑھیں اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ پڑھیں اور آپ نے اپنے رب سے طویل دعا فرمائی، پھر ہماری طرف رخ پھیر کر فرمایا:"میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگی ہیں۔ چنانچہ اس نے میری دو درخواستیں قبول فر لی ہیں اور ایک دعا قبول نہیں کی، میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے تو اللہ نے اس کو قبول کر لیا اور میں نے اس سے درخواست کی وہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرے تو اس نے یہ بھی قبول کر لی اور میں نے اس سے درخواست کی ان کو آپس میں نہ لڑائے تو اس نے یہ قبول نہیں کی۔"
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 444  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دعائیں`
«. . . 300- مالك عن عبد الله بن عبد الله بن جابر بن عتيك أنه قال: جاءنا عبد الله بن عمر فى بني معاوية -وهي قرية من قرى الأنصار- فقال لي: هل تدري أين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من مسجدكم هذا؟ فقلت له: نعم، وأشرت له إلى ناحية منه، فقال: هل تدري ما الثلاث التى دعا بهن؟ فقلت: نعم، فقال: أخبرني بهن فقلت: دعا بأن لا يظهر عليهم عدوا من غيرهم، ولا يهلكهم بالسنين فأعطيهما، ودعا بأن لا يجعل بأسهم بينهم فمنعها، فقال عبد الله بن عمر: صدقت، فلن يزال الهرج إلى يوم القيامة. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عبداللہ بن جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے دیہاتوں میں سے ایک گاؤں بنو معاویہ میں ہمارے پاس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا آئے تو مجھے کہا: کیا تمہیں پتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری مسجد میں کہاں نماز پڑھی تھی؟ میں نے مسجد کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا تو انہوں نے کہا: کیا تمہیں پتا ہے کہ آپ نے کون سی تین دعائیں مانگی تھیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے کہا: مجھے ان کے بارے میں بتاؤ۔ میں نے کہا: آپ نے دعا فرمائی کہ مسلمانوں پر غیر مسلم دشمنوں کو مکمل غلبہ نہ ہو اور اللہ (تمام) مسلمانوں کو قحط سالی اور بھوک سے ہلاک نہ کرے یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اللہ مسلمانوں کو آپس میں نہ لڑائے تو یہ دعا قبول نہیں ہوئی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے سچ کہا: قتل و قتال قیامت تک جاری رہے گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 444]

تخریج الحدیث: [وأخرجه الحاكم 517/4، من حديث ما لك به و صححه علٰى شرط الشيخين و وافقه الذهي و للحديث المرفوع شاهد عند مسلم 2890 ● و من رواية يحيى و جاء فى الأصل: يَرَاكَ]
تفقه:
➊ علم کے لئے سفر کرنا مسنون ہے۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اتباع سنت میں ہمیشہ مستعد رہتے تھے۔
➌ مسلمانوں میں باہم قتل و قتال قیامت تک ہوتا رہے گا۔
➎ یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہے جو من و عن پوری ہو چکی ہے۔
➎ دین اسلام قیامت تک دنیا میں باقی رہے گا اور اسے عملی طور پر فنا کرنے کی کوشش کرنے والے ہمیشہ ناکام رہیں گے۔
➏ قحط سالی اور بھوک سے ساری امت کبھی ہلاک نہیں ہو گی۔
➐ زید بن اسلم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو بھی دعا کرتا ہے تو تین باتیں ہوتی ہیں: یا تو دعا قبول ہو جاتی ہے، یا اسے مؤخر کر دیا جاتا ہے اور یا اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔ [الموطأ 271/1ح 505 وسنده صحيح]
➑ دعا صرف اللہ سے مانگنی چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 300