صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ -- فتنے اور علامات قیامت
8. باب لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ:
باب: قیامت آنے سے قبل فرات میں سونے کا پہاڑ نکلنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 7275
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خالِدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُوشِكُ الْفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَمَنْ حَضَرَهُ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا ".
عبد الرحمٰن اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب دریائے فرات سونے کے ایک پہاڑ کو ظاہر کردےگا۔جو شخص وہاں موجود ہووہ اس میں سے کچھ نہ لے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" قریب ہے کہ دریائے فرات سے سونے کاپہاڑ ظاہر ہوجائے تو جو شخص وہاں موجود ہو، وہ ہرگز اس سے کچھ لینے کی کوشش نہ کرے یاکچھ نہ لے۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4046  
´قیامت کی نشانیوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دریائے فرات میں سونے کے پہاڑ نہ ظاہر ہو جائیں، اور لوگ اس پر باہم جنگ کرنے لگیں، حتیٰ کہ دس آدمیوں میں سے نو قتل ہو جائیں گے، اور ایک باقی رہ جائے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4046]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے ایک جملے کے سوا باقی روایت کو حسن قراردیا ہے۔
شیخ البانی اور دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت (مِنْ كُلِّ عَشرَة تِسْعَة)
دس میں سے نو افراد۔
والے کے جملے کے علاوہ حسن صحیح ہے۔
کیونکہ مذکورہ جملہ شاذ ہے جبکہ محفوظ الفاظ (مِنْ كُلِّ مِائَةٌ تِسْعَة وَّ تِسْعُوْن)
ہر سو میں سے نناوے ہیں۔
علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اس جملے کو شاذ قراردیا ہے۔
لہٰذا مذکورہ روایت اس جملے کے سوا حسن بن جاتی ہے۔
والله اعلم، دیکھیے: (صحيح سنن ابن ماجة للألباني، رقم:
 3286 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 4046)


(2)
دریائے فرات ترکی سے شروع ہوکرشام عراق میں سے گزرتا ہوا خلیج فارس میں گرتا ہے۔
ترکی کا وہ حصہ بھی اس سے سیراب ہوتا ہے جہاں کردستان کے نام سے الگ ملک بنانے کی تحریک چل رہی ہے۔
اور عراق کا وہ حصہ جہاں یہ سمندر میں گرتا ہے۔
ایران اور کویت دونوں کی سرحدوں کے قریب ہے۔
اس لیے اس علاقے میں معدنی دولت کا خزانہ ظاہر ہونے پر علاقے کے ممالک میں جنگ کا چھڑنا ناگزیر ہے۔
اس کے ساتھ ہی علاقے کے ممالک کی سلامتی اور تحفظ کے نام پر بڑے ملک (امریکہ، روس اور چین وغیرہ)
بھی اس دولت پر قبضہ جمانے کے لیے شریک ہوسکتے ہیں۔

(3)
اس واقعہ کی پیشگی خبر دینے میں یہ حکمت ہے کہ سمجھ دار آدمی دولت کا لالچ نہ کریں اور جنگ میں شریک ہوکر جانیں نہ گنوائیں باالخصوص یہ جنگ اتنی شدید اور خطرناک ہوگی کہ ننانوے فیصد لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور صرف ایک فی صد جنگجو زندہ بچیں گے۔
ان کا حال بھی زخموں اور بیماریوں کی وجہ سے قابل رشک نہیں ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4046   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4046  
´قیامت کی نشانیوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دریائے فرات میں سونے کے پہاڑ نہ ظاہر ہو جائیں، اور لوگ اس پر باہم جنگ کرنے لگیں، حتیٰ کہ دس آدمیوں میں سے نو قتل ہو جائیں گے، اور ایک باقی رہ جائے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4046]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے ایک جملے کے سوا باقی روایت کو حسن قراردیا ہے۔
شیخ البانی اور دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت (مِنْ كُلِّ عَشرَة تِسْعَة)
دس میں سے نو افراد۔
والے کے جملے کے علاوہ حسن صحیح ہے۔
کیونکہ مذکورہ جملہ شاذ ہے جبکہ محفوظ الفاظ (مِنْ كُلِّ مِائَةٌ تِسْعَة وَّ تِسْعُوْن)
ہر سو میں سے نناوے ہیں۔
علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اس جملے کو شاذ قراردیا ہے۔
لہٰذا مذکورہ روایت اس جملے کے سوا حسن بن جاتی ہے۔
والله اعلم، دیکھیے: (صحيح سنن ابن ماجة للألباني، رقم:
 3286 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 4046)


(2)
دریائے فرات ترکی سے شروع ہوکرشام عراق میں سے گزرتا ہوا خلیج فارس میں گرتا ہے۔
ترکی کا وہ حصہ بھی اس سے سیراب ہوتا ہے جہاں کردستان کے نام سے الگ ملک بنانے کی تحریک چل رہی ہے۔
اور عراق کا وہ حصہ جہاں یہ سمندر میں گرتا ہے۔
ایران اور کویت دونوں کی سرحدوں کے قریب ہے۔
اس لیے اس علاقے میں معدنی دولت کا خزانہ ظاہر ہونے پر علاقے کے ممالک میں جنگ کا چھڑنا ناگزیر ہے۔
اس کے ساتھ ہی علاقے کے ممالک کی سلامتی اور تحفظ کے نام پر بڑے ملک (امریکہ، روس اور چین وغیرہ)
بھی اس دولت پر قبضہ جمانے کے لیے شریک ہوسکتے ہیں۔

(3)
اس واقعہ کی پیشگی خبر دینے میں یہ حکمت ہے کہ سمجھ دار آدمی دولت کا لالچ نہ کریں اور جنگ میں شریک ہوکر جانیں نہ گنوائیں باالخصوص یہ جنگ اتنی شدید اور خطرناک ہوگی کہ ننانوے فیصد لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور صرف ایک فی صد جنگجو زندہ بچیں گے۔
ان کا حال بھی زخموں اور بیماریوں کی وجہ سے قابل رشک نہیں ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4046   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2569  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کا خزانہ اگلے، لہٰذا (اس وقت) جو موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2569]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
اس لیے کہ یہ جھگڑا اور فتنہ و فساد کا ذریعہ بن جائے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2569   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2569  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کا خزانہ اگلے، لہٰذا (اس وقت) جو موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2569]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
اس لیے کہ یہ جھگڑا اور فتنہ و فساد کا ذریعہ بن جائے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2569