صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ -- فتنے اور علامات قیامت
8. باب لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ:
باب: قیامت آنے سے قبل فرات میں سونے کا پہاڑ نکلنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 7276
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي مَعْنٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، قَالَ: كُنْتُ وَاقِفًا مَعَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، فَقَالَ: لَا يَزَالُ النَّاسُ مُخْتَلِفَةً أَعْنَاقُهُمْ فِي طَلَبِ الدُّنْيَا، قُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يُوشِكُ الْفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَإِذَا سَمِعَ بِهِ النَّاسُ سَارُوا إِلَيْهِ، فَيَقُولُ مَنْ عِنْدَهُ: لَئِنْ تَرَكْنَا النَّاسَ يَأْخُذُونَ مِنْهُ لَيُذْهَبَنَّ بِهِ كُلِّهِ، قَالَ: فَيَقْتَتِلُونَ عَلَيْهِ، فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ مِائَةٍ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ "، قَالَ أَبُو كَامِلٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: وَقَفْتُ أَنَا وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فِي ظِلِّ أُجُمِ حَسَّانَ.
ابو کامل فضیل بن حسین اور ابو معن رقاشی نے ہمیں حدیث بیان کی۔ الفاظ ابومعن کے ہیں۔دونوں نے کہا: ہمیں خالد بن حارث نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبد الحمید بن جعفر نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: مجھے میرے والد نے سلیمان بن یسار سے خبردی، انھوں نے عبد اللہ بن حارث بن نوفل سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا تھا تو انھوں نےکہا: دنیا کی طلب میں لوگوں کی گردنیں مسلسل ایک دوسرے سے مختلف (اور باہمی جھگڑے اور عداوتیں جاری) رہیں گی۔میں نے کہا: ہاں (بالکل ایسے ہی ہو گا) انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: " (وہ و قت) قریب ہے کہ دریائےفرات سونے کے ایک پہاڑ کو ظاہر کرے گا۔جب لوگ اس کے بارے میں سنیں گے تو اس کی طرف چل نکلیں گے۔ جو لوگ اس (پہاڑ) کے قریب ہوں گےوہ کہیں گے۔اگر ہم نے (دوسرے) لوگوں کو اس میں سے (سونا) لےجانے کی اجازت دے دی تو وہ سب کا سب لے جائیں گے کہا: وہ اس پر جنگ آزماہوں کے تو ہر سو میں سے ننانوے قتل ہو جائیں گے۔ ابو کامل نے اپنی حدیث میں (اس طرح) کہا: انھوں نے کہا: میں اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قلعہ حسان کے سائے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
عبد اللہ بن حارث بن نوفل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑا ہوا تھا تو انھوں نے کہا لوگوں کی گردنیں دنیا کی طلب میں ہمیشہ مختلف رہیں گی، میں نے کہا، ہاں،حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"قریب ہے فرات سے ایک سونے کا پہاڑ ظاہر ہو جائے گا سو لوگ جب یہ بات سنیں گے، اس کی طرف چل پڑیں گے،پہاڑ کے قریب کے لوگ کہیں گے اگر ہم لوگوں کو اس کے لینے کے لیے کھلا چھوڑدیں تو یہ سارا لے جائیں گے، اس وجہ سے اس پر لڑپڑیں گے، چنانچہ ہر سو میں سے ننانویں قتل کر دئیے جائیں گے۔"ابو کامل کی حدیث میں ہے میں اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلعہ کے سایہ میں کھڑے ہوئے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4046  
´قیامت کی نشانیوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دریائے فرات میں سونے کے پہاڑ نہ ظاہر ہو جائیں، اور لوگ اس پر باہم جنگ کرنے لگیں، حتیٰ کہ دس آدمیوں میں سے نو قتل ہو جائیں گے، اور ایک باقی رہ جائے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4046]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے ایک جملے کے سوا باقی روایت کو حسن قراردیا ہے۔
شیخ البانی اور دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت (مِنْ كُلِّ عَشرَة تِسْعَة)
دس میں سے نو افراد۔
والے کے جملے کے علاوہ حسن صحیح ہے۔
کیونکہ مذکورہ جملہ شاذ ہے جبکہ محفوظ الفاظ (مِنْ كُلِّ مِائَةٌ تِسْعَة وَّ تِسْعُوْن)
ہر سو میں سے نناوے ہیں۔
علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اس جملے کو شاذ قراردیا ہے۔
لہٰذا مذکورہ روایت اس جملے کے سوا حسن بن جاتی ہے۔
والله اعلم، دیکھیے: (صحيح سنن ابن ماجة للألباني، رقم:
 3286 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 4046)


(2)
دریائے فرات ترکی سے شروع ہوکرشام عراق میں سے گزرتا ہوا خلیج فارس میں گرتا ہے۔
ترکی کا وہ حصہ بھی اس سے سیراب ہوتا ہے جہاں کردستان کے نام سے الگ ملک بنانے کی تحریک چل رہی ہے۔
اور عراق کا وہ حصہ جہاں یہ سمندر میں گرتا ہے۔
ایران اور کویت دونوں کی سرحدوں کے قریب ہے۔
اس لیے اس علاقے میں معدنی دولت کا خزانہ ظاہر ہونے پر علاقے کے ممالک میں جنگ کا چھڑنا ناگزیر ہے۔
اس کے ساتھ ہی علاقے کے ممالک کی سلامتی اور تحفظ کے نام پر بڑے ملک (امریکہ، روس اور چین وغیرہ)
بھی اس دولت پر قبضہ جمانے کے لیے شریک ہوسکتے ہیں۔

(3)
اس واقعہ کی پیشگی خبر دینے میں یہ حکمت ہے کہ سمجھ دار آدمی دولت کا لالچ نہ کریں اور جنگ میں شریک ہوکر جانیں نہ گنوائیں باالخصوص یہ جنگ اتنی شدید اور خطرناک ہوگی کہ ننانوے فیصد لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور صرف ایک فی صد جنگجو زندہ بچیں گے۔
ان کا حال بھی زخموں اور بیماریوں کی وجہ سے قابل رشک نہیں ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4046   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2569  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کا خزانہ اگلے، لہٰذا (اس وقت) جو موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2569]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
اس لیے کہ یہ جھگڑا اور فتنہ و فساد کا ذریعہ بن جائے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2569   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7276  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اجم،
قلعہ،
جمع آجام ہے۔
(2)
اعناق،
عنق (گردن)
کی جمع ہے،
اس سے مراد،
لوگوں کی حرص وآز کوبیان کرنا ہے کہ عام طور پر لوگ حصول دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی چیز ان میں باہمی رنجش واختلاف کا باعث بنتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7276