صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ -- فتنے اور علامات قیامت
18. باب لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مَكَانَ الْمَيِّتِ مِنَ الْبَلاَءِ:
باب: قیامت کے قریب فتنوں کی وجہ سے انسان کا قبرستان سے گزرتے ہوئے موت کی تمنا کرنا۔
حدیث نمبر: 7302
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبَانَ قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ عَلَى الْقَبْرِ، فَيَتَمَرَّغُ عَلَيْهِ، وَيَقُولُ: يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَكَانَ صَاحِبِ هَذَا الْقَبْرِ، وَلَيْسَ بِهِ الدِّينُ إِلَّا الْبَلَاءُ ".
ابو حازم نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!دنیا اس وقت تک رخصت نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ایک شخص (کسی کی) قبر کے پاس سے گزرے تواس پر لوٹ پوٹ ہوگا اور کہے گا: کاش!اس قبر و الے کی جگہ میں ہوتا اور اس کے پاس دین نہیں ہوگا، بس آزمائش ہوگی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے،دنیا ختم نہیں ہوگی، حتی کہ ایک آدمی قبر سے گزرے گا تو اس پر لوٹ پوٹ ہو گا اور کہے گا۔اے کاش اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا اور یہ دین کی خاطر نہیں محض مصیبت کی بنا پر ہوگا۔"
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 549  
´قیامت سے پہلے فتنے ظہور پذیر ہوں گے`
«. . . 339- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تقوم الساعة حتى يمر الرجل بقبر الرجل فيقول: يا ليتني مكانه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کوئی آدمی کسی آدمی کی قبر کے پاس سے گزرے اور یہ نہ کہے: ہائے افسوس! میں اس کی جگہ ہوتا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 549]

تخریج الحدیث:
[واخرجه البخاري 7115، و مسلم 157/53 بعد ح290، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جوں جوں قیامت نزدیک آرہی ہے آنے والے لوگ عام طور پر گزرے ہوئے لوگوں کی بہ نسبت بد سے بدتر آرہے ہیں۔
➋ شرعی عذر، فتنے میں مبتلا ہونے کے خوف اور شدید غم وپریشانی کے بغیر موت کی تمنا کرنا جائز نہیں ہے۔
➌ قیامت سے پہلے اُمت میں بڑے فتنے ہوں گے۔
➍ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس غیب کی اطلاع دی وہ آپ جانتے تھے۔
➎ حتی الوسع فتنوں سے دور رہنا چاہئے۔
➏ ہر وقت عاجزی اور تواضع اختیار کرنا چاہئے۔
● سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: «يا ليتني إذا متّ كنت نسيًا منسيًا۔» افسوس! کاش میں مرنے کے بعد بھلا دی جاتی۔ [كتاب المتمنين لابن ابي الدنيا ح27 وسنده صحيح، مصنف ابن ابي شيبه 13/359 ح34724 وسنده صحيح]
● سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مزید فرمایا: «يا ليتني كنت شجرة۔» ہائے افسوس! میں درخت ہوتی۔ [كتاب المتمنين: 28 وسنده حسن، مصنف ابن ابي شيبه 359/13 ح34725 و سنده حسن]
یہ تمام اقوال تواضع اور عاجزی پر محمول ہیں۔
➐ حدیث میں ذکر کردہ بیان، علاماتِ قیامت میں سے ایک نشانی ہے۔
➑ قبر سے مراد یہی دنیاوی قبر ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 339   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4037  
´زمانہ کی سختی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک آدمی قبر پر جا کر نہ لوٹے، اور یہ تمنا نہ کرے کہ کاش! اس قبر والے کی جگہ میں دفن ہوتا، اس کا سبب دین و ایمان نہیں ہو گا، بلکہ وہ دنیا کی بلا اور فتنے کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4037]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دنیاوی مشکلات میں اللہ سے مدد مانگنا اور حالات بہتر بنانے کی کوشش کرنا بہتر طریقہ ہے۔

(2)
دنیا کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرنا منع ہے۔

(3)
دین کی حفاظت کی فکر دنیا سے زیادہ ہونی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4037