صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ -- فتنے اور علامات قیامت
18. باب لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مَكَانَ الْمَيِّتِ مِنَ الْبَلاَءِ:
باب: قیامت کے قریب فتنوں کی وجہ سے انسان کا قبرستان سے گزرتے ہوئے موت کی تمنا کرنا۔
حدیث نمبر: 7321
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاذِ بْنِ عَبَّادٍ الْعَنْبَرِيُّ ، وَهُرَيْمُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ النَّضْرِ، أَخْبَرَنِي مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي أَبُو قَتَادَةَ ، وَفِي حَدِيثِ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أُرَاهُ يَعْنِي أَبَا قَتَادَةَ، وَفِي حَدِيثِ خَالِدٍ، وَيَقُولُ: يَا وَيْسَ ابْنِ سُمَيَّةَ.
اور خالد بن حارث اور نضر بن شمیل دونوں نے شعبہ سے روایت کی، انھوں نے ابو مسلمہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی، البتہ نضر کی حدیث میں ہے۔مجھے مجھ بہتر شخص ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے خبردی۔اور خالد بن حارث کی حدیث میں ہے کہ انھوں نے کہا: میراخیال ہے ان کی مراد ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے تھی۔اور خالد کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے۔"افسوس!"یا فرمایا"وائےافسوس ابن سمیہ پر!"
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی دو سندوں سے بیان کرتے ہیں خضر کی حدیث میں ہےمجھے مجھ سے بہتر شخص ابو قتادہ نے بتایا اور خالد بن حارث کی حدیث میں ہے حضرت ابو سعید نے کہا، میرا خیال وہ ابو قتادہ ہیں اور خالد کی حدیث میں یہ بھی آپ "وَيس یا وَيسَ ابن سمية"فر رہے تھے، یعنی اے حسرت و افسوس یہ "صَريح"کی جگہ آتا ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7321  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو مصر کے حالات کا جائزہ لینے روانہ فرمایا تھا اور وہ مصری باغیوں کے بھرا میں آگئے تھے اور انہیں کے ساتھ مل گئے تھے اور جنگ صفین میں ان کے ساتھ شہید ہوئے،
اس لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے،
ان کے قاتلین وہی ہیں،
جوان کو لے کر آئے ہیں،
اس بنا پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت کو اپنے لیے دلیل نہیں بنایا۔
اور امت کی اکثریت نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شہادت کو حضرت علی کے حق پر ہونے کی دلیل بنایا ہے اور ان کی خلافت کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور نہ ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے مقابلہ میں اپنے خلافت کا دعویٰ کیا تھا،
قابل توجہ بات تو ان کی باہمی لڑائی ہے جس کی اساس و بنیاد،
حضرت عثمان کے قاتلین سے قصاص لینے کا مسئلہ ہے،
حضرت معاویہ اس کے لیے تلوار اٹھانے کو جائز سمجھتے تھے،
کیونکہ صلح حدیبیہ کےمو قع پر جب حضرت عثمان کی شہادت کی افواہ پھیل گئی تو آپ نے ان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے صحابہ کرام سے لڑنے مرنے پر بیعت لی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا،
معاویہ پہلے میری بیعت کرکے،
میرے ہاتھ مضبوط کریں،
اس کے بغیر قاتلین عثمان پر قابو نہیں پایا جاسکتا،
کیونکہ وہ اپنے تحفظ کےلیے،
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھیوں میں گھس چکے تھے اور انہیں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی بنا پر،
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کسی سمجھوتہ پر پہنچ نہ سکے،
وگرنہ دونوں ہی جنگ سے گریز کرتے تھے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ نے شہید کیا ہے اور نام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کا لگایا ہے،
اس لیے وہ ان کی شہادت کو اپنے حق میں دلیل خیال کرتے تھے۔
(دیکھئے طبقات ابن سعد ج 3 ص253،
بحوالہ منتہ المنھم ج 4 ص 363)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7321