صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ -- فتنے اور علامات قیامت
19. باب ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ:
باب: ابن صیاد کا بیان۔
حدیث نمبر: 7360
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي ابْنَ حَسَنِ بْنِ يَسَارٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: كَانَ نَافِعٌ، يَقُولُ: ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَقِيتُهُ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ، فَقُلْتُ: لِبَعْضِهِمْ هَلْ تَحَدَّثُونَ أَنَّهُ هُوَ؟، قَالَ: لَا وَاللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ: كَذَبْتَنِي وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنِي بَعْضُكُمْ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ حَتَّى يَكُونَ أَكْثَرَكُمْ مَالًا وَوَلَدًا، فَكَذَلِكَ هُوَ زَعَمُوا الْيَوْمَ، قَالَ: فَتَحَدَّثْنَا ثُمَّ فَارَقْتُهُ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ لَقْيَةً أُخْرَى، وَقَدْ نَفَرَتْ عَيْنُهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَتَى فَعَلَتْ عَيْنُكَ مَا أَرَى؟، قَالَ: لَا أَدْرِي، قَالَ: قُلْتُ: لَا تَدْرِي وَهِيَ فِي رَأْسِكَ، قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ خَلَقَهَا فِي عَصَاكَ هَذِهِ، قَالَ: فَنَخَرَ كَأَشَدِّ نَخِيرِ حِمَارٍ، سَمِعْتُ، قَالَ: فَزَعَمَ بَعْضُ أَصْحَابِي أَنِّي ضَرَبْتُهُ بِعَصًا كَانَتْ مَعِيَ حَتَّى تَكَسَّرَتْ، وَأَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ، قَالَ: وَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، فَحَدَّثَهَا فَقَالَتْ: مَا تُرِيدُ إِلَيْهِ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّهُ قَدْ، قَالَ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يَبْعَثُهُ عَلَى النَّاسِ غَضَبٌ يَغْضَبُهُ ".
ابن عون نے ہمیں نافع سے حدیث بیان کی، کہا: نافع کہاکرتے تھے کہ ابن صیاد۔ (اسکے بارے میں) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:۔میں اس سے دوبارہ ملاہوں۔ایک بار ملا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ تم کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! تم نے مجھے جھوٹا کیا۔ تم میں سے بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ نہیں مرے گا، یہاں تک کہ تم سب میں زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہو گا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں۔ پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔ انھوں نے کہا: میرےساتھیوں میں سے ایک سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو ڈنڈا تھا میں نے اسے اس کے ساتھ اتنا مارا کہ وہ ڈنڈا ٹوٹ گیا لیکن میں، واللہ!مجھے کچھ پتہ نہ چلا۔ نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ام المؤمنین (حفصہ رضی اللہ عنہا) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اول چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:میں ابن صیادکودودفعہ ملاہوں۔میں اس کوملاتو میں نے کسی کو کہا،کیاتم(اس کے ساتھی) یہ کہتے ہو،یہ وہی(دجال)ہے؟اس نے کہا،نہیں،میں نےکہا،تم مجھے جھوٹ بتاتے ہو،اللہ کی قسم!مجھے تم میں سے ہی بعض نے بتایا ہے کہ وہ ہرگز مرےگا نہیں،حتیٰ کہ تم سب سے زیادہ مال اور اولاد والا ہوگا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں۔ پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔ انھوں نے کہا:میرےساتھیوں میں سے ایک سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو ڈنڈا تھا میں نے اسے اس کے ساتھ اتنا مارا کہ وہ ڈنڈا ٹوٹ گیا لیکن میں،واللہ!مجھے کچھ پتہ نہ چلا۔نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ام المؤمنین (حفصہ ؓ) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اول چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے۔