صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ -- فتنے اور علامات قیامت
20. باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ :
باب: دجال کا بیان۔
حدیث نمبر: 7371
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ حُجْرٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ حُجْرٍ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ: اجْتَمَعَ حُذَيْفَةُ وَأَبُو مَسْعُودٍ، فقال حذيفة " لَأَنَا بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ أَعْلَمُ مِنْهُ إِنَّ مَعَهُ نَهْرًا مِنْ مَاءٍ وَنَهْرًا مِنْ نَارٍ، فَأَمَّا الَّذِي تَرَوْنَ أَنَّهُ نَارٌ مَاءٌ، وَأَمَّا الَّذِي تَرَوْنَ أَنَّهُ مَاءٌ نَارٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَأَرَادَ الْمَاءَ، فَلْيَشْرَبْ مِنَ الَّذِي يَرَاهُ أَنَّهُ نَارٌ، فَإِنَّهُ سَيَجِدُهُ مَاءً "، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ : هَكَذَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ.
نعیم بن ابی ہند نے ربعی حراش سے روایت کی کہا: (ایک بارجب) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: دجال کے ہمراہ جو کچھ ہو گا اس مجھے خود اس کی نسبت زیادہ علم ہے اس کے ہمراہ ایک دریا پانی کا ہو گا اور ایک دریا آگ کا ہوگا، جوتمھیں نظرآئے گا۔کہ وہ آگ ہے وہ پانی ہو گا اور جو تمھیں نظر آئے گا کہ وہ پانی ہے وہ آگ ہو گی۔ تم میں سے جو شخص اس کو پائے اور پانی پینا چاہے وہ اس دریا سے پیے جو اسے نظر آتا ہے کہ وہ آگ ہے۔بلاشبہ وہ اسے پانی پائے گا۔حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح فرماتے ہوئے سناتھا۔
حضرت ربعی بن حراش رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکٹھے ہوئے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،دجال کے ساتھ جو کچھ ہے میں اس کی حقیقت اس سے زیادہ جانتا ہوں اس کے ساتھ ایک پانی کا دریا ہو گا اور ایک دریا آگ کا ہوگا، چنانچہ وہ جس کو تم دیکھو گے کہ وہ آگ ہے پانی ہو گا اور رہا وہ جس کو تم دیکھو گے وہ پانی ہے، آگ ہوگی لہٰذا تم میں سے جو اس واقعہ کو پائے اور پانی پینا چاہے تو اس سے پیے، جس کو آگ دیکھے،کیونکہ وہ اس کو یقیناً پانی پائے گا۔"حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے میں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح بیان کرتے سنا۔"
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3450  
´بنی اسرائیل کے واقعات کا بیان`
«. . . قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو لِحُذَيْفَةَ أَلَا تُحَدِّثُنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ" إِنَّ مَعَ الدَّجَّالِ إِذَا خَرَجَ مَاءً وَنَارًا فَأَمَّا الَّذِي يَرَى النَّاسُ أَنَّهَا النَّارُ فَمَاءٌ بَارِدٌ وَأَمَّا الَّذِي يَرَى النَّاسُ أَنَّهُ مَاءٌ بَارِدٌ فَنَارٌ تُحْرِقُ فَمَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ فَلْيَقَعْ فِي الَّذِي يَرَى أَنَّهَا نَارٌ فَإِنَّهُ عَذْبٌ بَارِدٌنِ . . .»
. . . عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ وہ حدیث ہم سے نہیں بیان کریں گے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جب دجال نکلے گا تو اس کے ساتھ آگ اور پانی دونوں ہوں گے لیکن لوگوں کو جو آگ دکھائی دے گی وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور لوگوں کو جو ٹھنڈا پانی دکھائی دے گا تو وہ جلانے والی آگ ہو گی۔ اس لیے تم میں سے جو کوئی اس کے زمانے میں ہو تو اسے اس میں گرنا چاہئے جو آگ ہو گی کیونکہ وہی انتہائی شیریں اور ٹھنڈا پانی ہو گا [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3450]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ}
باب اور حدیث میں مناسبت
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل بلکہ انتہائی مشکل دکھلائی دیتی ہے، بلکہ کئی شارحین نے سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ والی مندرجہ بالا حدیث پر کسی قسم کی کوئی تطبیق کا ذکر نہیں فرمایا،
یہاں تک کہ علامہ عینی نے صاف طور پر کہہ دیا:
«هذا الحديث مشتمل على ثلاثة احاديث: الاول حديث الدجال . والثاني و الثالث: فى رجلين كل واحد فى رجل، والمطابقة للترجمة فى الثاني والثالث .» [عمده القاري 65/16]
یہ حدیث تین احادیث پر مشتمل ہے، پہلی حدیث دجال کے بارے میں، دوسری اور تیسری دو آدمیوں کے بارے میں کہ ہر ایک میں ایک آدمی ہے، (جن کا تعلق بنی اسرائیل کے ساتھ تھا)، لہٰذا مطابقت ترجمۃ الباب سے دوسری اور تیسری حدیث سے ہے، (یعنی پہلی حدیث سے مطابقت نہیں ہے)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں فرمایا:
«الحديث ياتي الكلام عليه مستوفي فى كتاب الفتن، والغرض منه هنا ايراد ما يليه و هو قصة الرجل الذى كايبايع الناس وقصة الرجل الذى اوصي بنيه ان يحرقوه .» [فتح الباري 413/7]
حافظ صاحب کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دجال والی حدیث دیگر دو احادیث سے تعلق رکھتی ہیں، کیونکہ بقیہ دونوں کے راوی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی ہیں، لیکن مناسبت کے لئے میرے خیال سے یہ کافی نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے دجال کی حدیث کے بعد دو احادیث حذیفہ بن یمان سے نقل فرمائی ہیں اور صحیح بخاری میں مختلف جگہوں پر مختلف اسناد سے ان تینوں احادیث کو نقل فرمایا ہے۔
دجال کی حدیث 7130 میں۔۔۔۔۔
دوسری حدیث کو 2077 میں۔۔۔۔
تیسری حدیث کو 9480 میں۔۔۔۔۔
ذکر کیا ہے۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
تحت الباب تین احادیث کا ذکر فرمایا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ پہلی حدیث دجال کے بارے میں،
دوسری حدیث خریدوفروخت کے بارے میں،
تیسری حدیث نباش (کفن چور) کے بارے میں نقل کرتے ہیں،
مزید لکھتے ہیں کہ:
«والمطابقة للترجمة فى الثاني و الثالث.» [لب اللباب 69/3]
ترجمۃ الباب سے مطابقت، دوسری اور تیسری حدیث میں ہے، (کیونکہ ان حدیثوں میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر ہے۔
لیکن پہلی حدیث جس میں دجال کا ذکر ہے، اس میں کون سی مطابقت ہو گی اور اتفاق ہے کہ کئی شارحین نے اس حدیث کی مطابقت پر گفتگو نہیں فرمائی۔۔۔۔۔
یہ حقیر بندہ کہتا ہے کہ دجال کی حدیث سے ترجمۃ الباب کو مناسبت بہت گہرے انداز میں موجود ہے، وہ اس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ما من نبي الا وقد انذر امته الاعور الكذاب الا انه اعور وان ربكم ليس باعور مكتوب بين عينيه ك- ف. ر.» [صحيح مسلم باب الرجال 4933]
کوئی نبی ایسا نہیں گزرا مگر اس نے اپنی امت کو دجال کے بارے میں ڈرایا تھا اور تمہارا رب کانا نہیں، وہ اس (دجال) کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک، ف، ر، لکھا ہوا ہے۔
صحیح مسلم کی اس حدیث پر غور فرمائیں، جسے خود امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی (کتاب الفتن رقم الحدیث 7131) میں ذکر فرمایا ہے، مذکورہ حدیث میں تمام نبیوں کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی امت کو دجال کے فتنے سے آگاہی فراہم کی، لہٰذا موسیٰ علیہ السلام بھی ایک صاحب شریعت نبی تھے اور کیوں کر آپ نے بھی اپنی امت کو اس کے فتنے نہ ڈرایا ہو گا؟ لہٰذا حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی امت بنی اسرائیل ہے تو جب بنی اسرائیل ثابت ہوئے تو اس موقع پر بالاولیٰ موسیٰ علیہ السلام کا بھی ہونا ثابت ہوا اور ان کا دجال سے اپنی امت کو ڈرانا بھی ثابت ہوا، لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا اشارہ ملتا ہے۔
(الحمد للہ یہ توفیق صرف اللہ کی طرف سے ہے۔)
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 31