صحيح مسلم
كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ -- زہد اور رقت انگیز باتیں
1ق. باب مَا جَاءَ أَنَّ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ 
باب: دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہونے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7418
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالسُّوقِ دَاخِلًا مِنْ بَعْضِ الْعَالِيَةِ، وَالنَّاسُ كَنَفَتَهُ فَمَرَّ بِجَدْيٍ أَسَكَّ مَيِّتٍ، فَتَنَاوَلَهُ فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ بِدِرْهَمٍ "، فَقَالُوا: مَا نُحِبُّ أَنَّهُ لَنَا بِشَيْءٍ، وَمَا نَصْنَعُ بِهِ، قَالَ: " أَتُحِبُّونَ أَنَّهُ لَكُمْ؟ "، قَالُوا: وَاللَّهِ لَوْ كَانَ حَيًّا كَانَ عَيْبًا فِيهِ لِأَنَّهُ أَسَكُّ، فَكَيْفَ وَهُوَ مَيِّتٌ؟، فَقَالَ: " فَوَاللَّهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذَا عَلَيْكُمْ "،
سلیمان بن بلال نے جعفر سے، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کی) کسی بالائی جانب سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے، لوگ آپ کے پہلو میں (آپ کے ساتھ چل رہے) تھے۔آپ حقیر سے کانوں والے مرے ہوئے میمنے کے پاس سے گزرے، آپ نے اسے کان سے پکڑ کر اٹھایا، پھر فرمایا: تم میں سے کون اسے ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے گا؟"توانھوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: ہمیں یہ کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں، ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟آپ نے فرمایا: " (پھر) کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے؟"انھوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی: اللہ کی قسم!اگر یہ زندہ ہوتاتو تب بھی اس میں عیب تھا، کیونکہ (ایک تو) یہ حقیر سے کانوں والا ہے (بھلانہیں لگتا)۔پھر جب وہ مرا ہوا ہے تو کس کام کا؟ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی قسم!جتنا تمہارے نزدیک یہ حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کی) کسی بالائی جانب سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے،لوگ آپ کے پہلو میں(آپ کے ساتھ چل رہے) تھے۔آپ حقیر سے کانوں والے مرے ہوئے میمنے کے پاس سے گزرے،آپ نے اسے کان سے پکڑ کر اٹھایا،پھر فرمایا:تم میں سے کون اسے ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے گا؟"توانھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا:ہمیں یہ کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں،ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟آپ نے فرمایا:"(پھر) کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے؟"انھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی:اللہ کی قسم!اگر یہ زندہ ہوتاتو تب بھی اس میں عیب تھا،کیونکہ(ایک تو) یہ حقیر سے کانوں والا ہے(بھلانہیں لگتا)۔پھر جب وہ مرا ہوا ہے تو کس کام کا؟ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کی قسم!جتنا تمہارے نزدیک یہ حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔"
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 186  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موقع بموقع پیش آمدہ حقائق کو تمثیلات سے سمجھاتے تھے`
«. . . عَنْ جَابِرٍ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالسُّوقِ دَاخِلًا مِنْ بَعْضِ الْعَالِيَةِ وَالنَّاسُ كَنَفَتَيْهِ، فَمَرَّ بِجَدْيٍ أَسَكَّ مَيِّتٍ، فَتَنَاوَلَهُ فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ؟ . . .»
. . . جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب کی بستیوں میں سے ایک بستی کی طرف سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے دائیں بائیں جانب ہو کر چل رہے تھے، آپ چھوٹے کان والی بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کان پکڑ کر اٹھایا، پھر فرمایا: تم میں سے کون شخص اس کو لینا چاہے گا؟ . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 186]
فوائد و مسائل:
➊ صحیح مسلم میں یہ حدیث مکمل اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون چاہتا ہے کہ اس کو ایک درہم کے عوض لے؟ صحابہ نے کہا: ہم تو اسے نہیں لینا چاہتے اور اس کا ہم کریں گے بھی کیا؟ فرمایا: کیا تم اسے بلا قیمت لینا پسند کرتے ہو؟ کہنے لگے: قسم اللہ کی! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو عیب دار تھا، اس کے کان ہی چھوٹے چھوٹے ہیں اور اب تو یہ ویسے ہی مردار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اللہ کی! دنیا اللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ حقیر ہے، جتنا تم اس کو حقیر جان رہے ہو۔ [صحيح مسلم حديث: 2957]
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موقع بموقع پیش آمدہ حقائق کو تمثیلات سے سمجھاتے تھے اور اس واقعہ میں دنیا کی حقیقت کو نکھار دیا گیا ہے۔ داعی حضرات اور اساتذہ کو زندگی میں پیش آمدہ امور سے واقعاتی مثالیں پیش کرنی چاہئیں۔
➌ مردار کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (محدثین کی فقاہت قابل داد ہے۔ رحمھما اللہ تعالیٰ)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 186   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7418  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اسك:
جس کے کان چھوٹے یا کٹے ہوں،
بوچا۔
فوائد ومسائل:
جس طرح مردار اور بوچابچہ انسان کے نزدیک حقیر اور ذلیل ہے،
اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر اور بے وقعت ہے،
اس لیے دنیا کو اپنی طلب و فکر کا مرکز بنانے کی بجائے،
ہمیں آخرت کو اپنی توجہ اور اہتمام کا مرکز بنانا چاہیے اور دنیا سے بقدر ضرورت ہی فائدہ اٹھانا چاہیے،
دنیا کے سلسلہ میں افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7418