صحيح مسلم
كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ -- زہد اور رقت انگیز باتیں
1ق. باب مَا جَاءَ أَنَّ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ 
باب: دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہونے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7441
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا "، وَفِي رِوَايَةِ عَمْرٍو: اللَّهُمَّ ارْزُقْ،
ابو بکر بن ابی شیبہ عمروناقد زہیر بن حرب اور ابو کریب نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں اعمش نے عمار ہ بن قعقاع سے حدیث بیان کی انھوں نے ابو زرعہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ!آل محمد کا رزق زندگی برقرار رکھنے جتنا کردے۔" اور عمرو کی روایت میں ہے: "اے اللہ! (آل محمدکو زندگی برقرار رکھنے جتنا) رزق دے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدعافرمائی،"اے اللہ!آل محمد(خاندان محمد) کارزق بقدر کفایت فرما۔"اور عمرو کی روایت میں "اللهم ارزُق"ہے،یعنی "اِجعَل" کی جگہ"اُرزُق"ہے،مقصد ایک ہی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4139  
´قناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا» اے اللہ! آل محمد کو بہ قدر ضرورت روزی دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4139]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
انسانوں کو چاہیے کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی اچھی عادات وخصائل کی خواہش رکھے۔

(2)
ضرورت کے مطابق رزق کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ نہ ملے جسے منع کرکے رکھا جائے۔

(3)
نبی ﷺ کا زہد وقناعت امت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4139   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4139  
´قناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا» اے اللہ! آل محمد کو بہ قدر ضرورت روزی دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4139]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
انسانوں کو چاہیے کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی اچھی عادات وخصائل کی خواہش رکھے۔

(2)
ضرورت کے مطابق رزق کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ نہ ملے جسے منع کرکے رکھا جائے۔

(3)
نبی ﷺ کا زہد وقناعت امت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4139   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2361  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی معاشی زندگی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا» اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو صرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقرار رہ سکے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2361]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ ﷺایسی زندگی گزارنا پسندکرتے تھے جو دنیوی آلائشوں اورآرام وآسائش سے پاک ہو،
کیونکہ بعثت نبوی کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو دنیا کے ہنگاموں،
مشاغل اورزیب وزینت سے ہٹاکرآخرت کی طرف متوجہ کریں،
اسی لیے آﷺ نے اپنے اور اپنے گھروالوں کے حق میں مذکورہ دعا فرمائی،
آپ کی اس دعا سے علماء اورداعیان اسلام کو نصیحت حاصل کرناچاہئے کہ ہماری زندگی سادگی کا نمونہ اوردنیاوی تکلفات سے پاک ہو،
اگراللہ ہمیں مال ودولت سے نوازے تومالدارصحابہ کرام کاکردارہمارے پیش نظرہونا چاہئے تاہم مال ودولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہئے اورنہ اس کے لیے ہرقسم کا حربہ وہتھکنڈہ استعمال کرنا چاہئے خواہ اس حربے اورہتھکنڈے کا استعمال کسی دینی کام کے آڑمیں ہی کیوں نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2361   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2361  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی معاشی زندگی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا» اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو صرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقرار رہ سکے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2361]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ ﷺایسی زندگی گزارنا پسندکرتے تھے جو دنیوی آلائشوں اورآرام وآسائش سے پاک ہو،
کیونکہ بعثت نبوی کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو دنیا کے ہنگاموں،
مشاغل اورزیب وزینت سے ہٹاکرآخرت کی طرف متوجہ کریں،
اسی لیے آﷺ نے اپنے اور اپنے گھروالوں کے حق میں مذکورہ دعا فرمائی،
آپ کی اس دعا سے علماء اورداعیان اسلام کو نصیحت حاصل کرناچاہئے کہ ہماری زندگی سادگی کا نمونہ اوردنیاوی تکلفات سے پاک ہو،
اگراللہ ہمیں مال ودولت سے نوازے تومالدارصحابہ کرام کاکردارہمارے پیش نظرہونا چاہئے تاہم مال ودولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہئے اورنہ اس کے لیے ہرقسم کا حربہ وہتھکنڈہ استعمال کرنا چاہئے خواہ اس حربے اورہتھکنڈے کا استعمال کسی دینی کام کے آڑمیں ہی کیوں نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2361   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7441  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آل سے مراد یہاں آپ کا اہل و عیال ہے،
آپ نے دعا فرمائی کہ ہمیں روزی بس اتنی دے کہ اس سے زندگی کا نظام چلتا رہے،
نہ اتنی تنگی ہو کہ فاقہ کشی اور پریشان حالی کی وجہ سے،
اپنے متعلقہ امور اور فرائض بھی سرانجام نہ دیئے جاسکیں اور کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑے اور نہ اتنی فراغت ہو کہ ذخیرہ کر کے رکھا جاسکے،
کیونکہ امت اکثریت غربت و ناداری کی شکار ہے،
اس لیے آپ نے امت کے غرباء اور ان مساکین و محتاجوں کے لیے اپنا نمونہ چھوڑا،
تاکہ وہ اپنے حالات اور گزر بسر پر صبرو قناعت کرسکیں اور دوسروں کو دیکھ کر حرص وطمع یا حسد وکینہ کا شکار نہ ہوں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7441