صحيح مسلم
كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ -- زہد اور رقت انگیز باتیں
14. باب النَّهْيِ عَنِ الْمَدْحِ إِذَا كَانَ فِيهِ إِفْرَاطٌ وَخِيفَ مِنْهُ فِتْنَةٌ عَلَى الْمَمْدُوحِ:
باب: بہت تعریف کرنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 7501
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ: " وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ مِرَارًا، إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لَا مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ: أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ، وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ، إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذَاكَ كَذَا وَكَذَا ".
یزید بن زریع نے خالد حذاء سے، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی بکرہ سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تعریف کی، کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر افسوس ہے!تم نے اپنے ساتھ کی گردن کاٹ دی، اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔"کئی بار کہا: (پھر فرمایا:) تم میں سے کسی شخص نے لامحالہ اپنے ساتھی کی تعریف کرنی ہوتو اس طرح کہے: میں فلاں کو ایسا سمجھتا ہوں، اصلیت کو جاننے والا اللہ ہے۔اورمیں اللہ (کے علم) کے مقابلے میں کسی کی خوبی بیان نہیں کررہا، میں اسے (ایسا) سمجھتا ہوں۔اگر وہ واقعی اس خوبی کو جانتا ہے (تو کہے!)۔وہ اس طرح (کی خوبی رکھتا) ہے۔"
حضرت ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تعریف کی،کہا:تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم پر افسوس ہے!تم نے اپنے ساتھ کی گردن کاٹ دی،اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔"کئی بار کہا:(پھر فرمایا:)تم میں سے کسی شخص نے لامحالہ اپنے ساتھی کی تعریف کرنی ہوتو اس طرح کہے:میں فلاں کو ایسا سمجھتا ہوں،اصلیت کو جاننے والا اللہ ہے۔اورمیں اللہ(کے علم) کے مقابلے میں کسی کی خوبی بیان نہیں کررہا،میں اسے(ایسا) سمجھتا ہوں۔اگر وہ واقعی اس خوبی کو جانتا ہے(تو کہے!)۔وہ اس طرح(کی خوبی رکھتا) ہے۔"
  صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7501  
´بہت تعریف کرنے کی ممانعت`
«. . . قَالَ: مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ: وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ مِرَارًا، إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لَا مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ: أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ، وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ، إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذَاكَ كَذَا وَكَذَا . . .»
. . . سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے ایک شخص کی تعریف کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹی، اپنے بھائی کی گردن کاٹی۔ کئی بار! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی تم سے اپنے بھائی کی خواہ مخواہ تعریف کرنا چاہے تو یوں کہے: میں سمجھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور میں دل کا حال نہیں جانتا یا عاقبت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایسا ہے اگر اس بات کو جانتا ہو . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ: 7501]

تشریح:
نووی رحمہ اللہ نے کہا: امام مسلم رحمہ اللہ نے اس باب میں کئی حدیثیں بیان کیں ہیں جن سے تعریف کرنے کی ممانعت نکلتی ہے اور صحیحین میں بہت سی حدیثیں ہیں جن سے منہ پر تعریف کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے اور جمع یوں ہے کہ ممانعت تب ہے جب تعریف میں مبالغہ اور افراط کرے یا جس کی تعریف کرے اس کے غرور اور تکبر میں آ جانے کا ڈر ہو تو گویا اس کو تباہ کیا اور یہی مراد ہے گردن کاٹنے سے۔ البتہ جو شخص دیندار اور پرہیزگار ہو اور یہ ڈر نہ ہو کہ تعریف سے اس کو غرور پیدا ہو جائے گا اس کی تعریف کرنا منع نہیں بشرطیکہ مبالغہ نہ ہو بلکہ اگر اس نیت سے تعریف کرے کہ وہ نیکی زیادہ کرے یا اوروں کو ایسے کام کرنے کی ترغیب ہو تو مستحب ہے۔ انتھیٰ۔
مترجم کہتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں کوئی تعریف کرنے والا ایسا نہیں الا ماشاء اللہ جس کے منہ پر خاک نہ ڈالی جائے۔ یہ لوگ تعریف میں اتنا مبالغہ کرتے ہیں کہ معاذ اللہ جھوٹ کا طومار باندھ دیتے ہیں۔ ایک ایک گاؤں کے حاکم کو جس کی کوئی وقعت نہیں بادشاہ اور ظل اللہ اور سلطان اور مرجع عالم اور جہاں پناہ اور معلوم نہیں کیا کیا لغو بات کہتے ہیں اور بادشاہ کو تو نہ پوچھئے شہنشاہ گیتی پناہ وہ وہ القاب کہتے اور لکھتے ہیں جو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے لائق نہیں ہیں ان کی زبان پر اللہ کی پھٹکار، اسی طرح وہ لوگ بھی ہیں جو خط و خطوط اور عرائض میں مکتوب الیہ کے بےحد القاب لکھتے ہیں وہ بھی جھوٹے اور گنہگار ہیں اور قیامت کے دن ان سے اس جھوٹ پر مواخذہ ہو گا۔
   مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7501   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7501  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر کوئی انسان خوبی اور کمال سے متصف ہو،
یا اس نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو،
جس پر اس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہو،
تو اس کی حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہیے،
لیکن اس میں ایسا انداز اور اسلوب اختیار نہیں کرنا چاہیے،
جس میں مبالغہ ومدح سرائی ہو،
جس سے اس کے اندر عجب و غرور اورگھمنڈ پیدا ہوجائے اور وہ اپنی مدح و تعریف سننے کا عادی بن جائے،
یادوسروں کے کاموں کا کریڈٹبھی لینے لگے اور یہ تعریف و توصیف بھی اپنے علم کی حد تک ہو گی،
کیونکہ اصل حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے،
ہم تو کسی کے ظاہر ہی کو جان سکتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7501