صحيح مسلم
كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ -- زہد اور رقت انگیز باتیں
14. باب النَّهْيِ عَنِ الْمَدْحِ إِذَا كَانَ فِيهِ إِفْرَاطٌ وَخِيفَ مِنْهُ فِتْنَةٌ عَلَى الْمَمْدُوحِ:
باب: بہت تعریف کرنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 7505
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ مَهْدِيٍّ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ يُثْنِي عَلَى أَمِيرٍ مِنَ الْأُمَرَاءِ، فَجَعَلَ الْمِقْدَادُيَحْثِي عَلَيْهِ التُّرَابَ، وَقَالَ: " أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثِيَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ ".
ابو معمر سے روایت ہے کہ ایک شخص کھڑاہوا امراء میں سے کسی امیر کی تعریف کرنے لگا توحضرت مقداد رضی اللہ عنہ اس شخص پر مٹی ڈالنے لگے، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیاتھا کہ ہم مدح سراؤں کے منہ میں مٹی ڈالیں۔
حضرت ابو معمر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، کہ ایک شخص کھڑاہوا امراء میں سے کسی امیر کی تعریف کرنے لگا توحضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص پر مٹی ڈالنے لگے،اور کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیاتھا کہ ہم مدح سراؤں کے منہ میں مٹی ڈالیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3742  
´مدح کا بیان۔`
مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3742]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
منہ پر تعریف کرنے والوں کا مقصد عام طور پر اپنے ممدوح حضرات کی مبالغہ آمیز نا جائز تعریف اور خوشامد وغیرہ کر کے ان سے ناجائز طور پر مالی فائدہ حاصل کرنا یا ان کی نظر میں بلند مقام حاصل کرنا ہوتا ہے۔
یہ عمل اخلاقی طور پر غلط ہے۔

(2)
چہروں پر خاک ڈالنے کا مطلب بالکل واضح ہے کہ تعریف کرنے والے شخص کے منہ پر مٹی ڈال دی جائے جس طرح کہ راوی حدیث صحابیٔ رسول مقداد بن عمرو ؓنے حاکم وقت کی ان کے منہ پر تعریف کرنے والے شخص کے چہرے پر مٹی پھینکی تھی، پھر ان کے پوچھنے پر فرمایا تھا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خوشامد کرنے والوں کے منہ پر اسی طرح مٹی پھینکنے کا حکم دیا ہے۔ (صحیح مسلم، الزھد، باب النهي عن المدح إذا كان فيه إفراط ......، حديث: 3002)
یہ بات یاد رہے کہ اس ممنوع تعریف سے مراد وہ تعریف ہے جو ناجائز، مبنی بر خوشامد اور مبالغہ آمیز ہو، نیز ایسی تعریف جس سے ممدوح شخص کے عجب، خود پسندی اور ریا کاری وغیرہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو۔
  ہاں، اگر کوئی شخص واقعی قابل تعریف ہو اور اپنی تعریف سن کر اس شخص کے کسی قسم کے فتنے وغیرہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو اور نہ ہی تعریف کرنے والے کا مقصد ہی ناجائز فوائد کا حصول ہو تو  ایسی تعریف کرنا جائز ہے جس طرح کہ خود رسول اللہ ﷺنے اپنے بعض صحابہ ؓکی تعریف ان کی موجودگی میں فرمائی ہے۔
واللہ أعلم۔

(3)
مبالغہ آمیز تعریف کی وجہ سے ممدوح کے دل میں فخر و غرور پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اور عین ممکن ہے کہ اس تعریف و شہرت کی وجہ سے وہ عمل میں سستی کا شکار ہو جائے یا تعریف کی لذت محسوس کر کے ریا کاری میں مبتلا ہو جائے، اور یہ ہلاکت کا باعث ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3742   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4804  
´بے جا تعریف اور مدح سرائی کی برائی کا بیان۔`
ہمام کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف انہی کے سامنے کرنے لگا، تو مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے مٹی لی اور اس کے چہرے پہ ڈال دی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4804]
فوائد ومسائل:
یہ مذمت اور یہ معاملہ ایسے لوگوں کے لیئے معلوم ہو تا ہے جن کا وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے لوگوں کی خوش آمد اور مدح سرائی کر کے مال کھاتے اور اپنے کام نکالتے ہیں، لیکن اگر کسی کی حوصلہ افزائی اور ترغیب و تشویق کے لیے اس کے اعمال خیر کی مناسب حد تک مدح کردی جائےتو ان شاء اللہ مباح ہے، بہر حال حضرت مقداد رضی اللہ عنہ فرمانِ رسول ﷺکے ظاہری معنی ہی لیتے تھے۔
جو بلاشبہ حق اور سچ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4804   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7505  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض حضرات نے صحابی رسول کی طرح،
اس حدیث کو ظاہری لغوی معنی پر محمول کیا ہے کہ تملق و چاپلوسی کرنے والے پیشہ ور قصیدہ خانوں کے چہروں پر حقیقتا مٹی ڈالنی چاہیے،
لیکن اکثر سلف کے نزدیک یہ اس کو ناکام و نامراد کرنے سے کنایہ ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے اور اس مقصد اور غرض کو پورا نہیں کرنا چاہیے،
ممدوح کو کسی فخر و گھمنڈ اور خود پسندی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور نہ اس کی بات کو اہمیت ووزن دینا چاہیے،
اگر وہ کچھ لینے کے لیے ایسے کررہا ہے،
تو اسے محروم کرنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7505