صحيح مسلم
كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ -- زہد اور رقت انگیز باتیں
18. باب حَدِيثِ جَابِرٍ الطَّوِيلِ وَقِصَّةِ أَبِي الْيَسَرِ:
باب: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث اور قصہ ابی الیسر کا بیان۔
حدیث نمبر: 7516
سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ عُشَيْشِيَةٌ، وَدَنَوْنَا مَاءً مِنْ مِيَاهِ الْعَرَبِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ رَجُلٌ يَتَقَدَّمُنَا، فَيَمْدُرُ الْحَوْضَ، فَيَشْرَبُ وَيَسْقِينَا، قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: هَذَا رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ رَجُلٍ مَعَ جَابِرٍ، فَقَامَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى الْبِئْرِ، فَنَزَعْنَا فِي الْحَوْضِ سَجْلًا أَوْ سَجْلَيْنِ، ثُمَّ مَدَرْنَاهُ ثُمَّ نَزَعْنَا فِيهِ حَتَّى أَفْهَقْنَاهُ، فَكَانَ أَوَّلَ طَالِعٍ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَتَأْذَنَانِ؟، قُلْنَا: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَشْرَعَ نَاقَتَهُ، فَشَرِبَتْ شَنَقَ لَهَا، فَشَجَتْ فَبَالَتْ ثُمَّ عَدَلَ بِهَا، فَأَنَاخَهَا ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْحَوْضِ، فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ثُمَّ قُمْتُ، فَتَوَضَّأْتُ مِنْ مُتَوَضَّإِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ، وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ ذَهَبْتُ أَنْ أُخَالِفَ بَيْنَ طَرَفَيْهَا، فَلَمْ تَبْلُغْ لِي وَكَانَتْ لَهَا ذَبَاذِبُ، فَنَكَّسْتُهَا ثُمَّ خَالَفْتُ بَيْنَ طَرَفَيْهَا ثُمَّ تَوَاقَصْتُ عَلَيْهَا ثُمَّ جِئْتُ حَتَّى قُمْتُ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَدَارَنِي حَتَّى أَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ ثُمَّ جَاءَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ، فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَامَ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْنَا جَمِيعًا، فَدَفَعَنَا حَتَّى أَقَامَنَا خَلْفَهُ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمُقُنِي وَأَنَا لَا أَشْعُرُ، ثُمَّ فَطِنْتُ بِهِ، فَقَالَ: هَكَذَا بِيَدِهِ يَعْنِي شُدَّ وَسَطَكَ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا جَابِرُ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِذَا كَانَ وَاسِعًا، فَخَالِفْ بَيْنَ طَرَفَيْهِ، وَإِذَا كَانَ ضَيِّقًا، فَاشْدُدْهُ عَلَى حَقْوِكَ
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب کسی حد تک شام ہوگئی اور ہم عرب کے پانیوں میں سے کسی پانی کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون شخص ہے جو ہم سے پہلے جاکر حوض (کےکنارے کو مضبوط کرنے کے لیے اس) کی لپائی کرے گا اور خود بھی پانی پیے گا اور ہمیں بھی پلائے گا؟"حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کھڑا ہو گیا اور عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہے وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا۔؟تو حضرت جبار بن صخر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ہم کنویں کے پاس گئے اور ہم نے (کنویں سے نکال کر) وضو کیا پھر میں کھڑا ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کی جگہ سے (پانی لے کر) وضو کیا۔جباربن صخر رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور میرے جسم پر ایک چادرتھی۔میں (ایک طرف) گیا کہ اس (چادر) کے دونوں کناروں کومخالف سمتوں میں (کندھوں پر) ڈالوں تو وہ مجھے پوری نہ آئی۔اس کی جھاگریں تھیں میں نے اس (چادر) کو الٹ کر اس کے کنارے بدلے پھر اس پر اپنی گردن سے زور ڈالا (گردن جھکا کر اسے اس کے نیچے دبایا) پھر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔آپ نے میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھمایا یہاں تک کہ مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا پھر جبار صخر رضی اللہ عنہ آئے انھوں نے وضو کیا اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور ہمیں دھکیل کر اپنے پیچھے کھڑا کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلسل سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا پھر مجھے سمجھ آئی تو آپ نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا: "آپ کا مقصد تھا کہ اپنی کمر باندھ لو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز سے) فارغ ہوئے تو فرمایا: "اے جابر رضی اللہ عنہ!"میں نے عرض کی حاضر ہوں اللہ کے رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب کپڑا کھلا ہو تو اس کے کناروں کو مخالفت سمتوں میں میں لےجاؤ اور اگر تنگ ہو تو اس کو کمرکے اوپر باندھ لو۔"
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب کسی حد تک شام ہوگئی اور ہم عرب کے پانیوں میں سے کسی پانی کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کون شخص ہے جو ہم سے پہلے جاکر حوض (کےکنارے کو مضبوط کرنے کے لیے اس)کی لپائی کرے گا اور خود بھی پانی پیے گا اور ہمیں بھی پلائے گا؟"حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں کھڑا ہو گیا اور عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہے وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا۔؟تو حضرت جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے ہم کنویں کے پاس گئے اور ہم نے (کنویں سے نکال کر)وضو کیا پھر میں کھڑا ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کی جگہ سے (پانی لے کر)وضو کیا۔جباربن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور میرے جسم پر ایک چادرتھی۔میں (ایک طرف) گیا کہ اس (چادر) کے دونوں کناروں کومخالف سمتوں میں (کندھوں پر) ڈالوں تو وہ مجھے پوری نہ آئی۔اس کی جھاگریں تھیں میں نے اس(چادر)کو الٹ کر اس کے کنارے بدلے پھر اس پر اپنی گردن سے زور ڈالا(گردن جھکا کر اسے اس کے نیچے دبایا)پھر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔آپ نے میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھمایا یہاں تک کہ مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا پھر جبار صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے انھوں نے وضو کیا اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور ہمیں دھکیل کر اپنے پیچھے کھڑا کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلسل سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا پھر مجھے سمجھ آئی تو آپ نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا:"آپ کا مقصد تھا کہ اپنی کمر باندھ لو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز سے) فارغ ہوئے تو فرمایا:"اے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!"میں نے عرض کی حاضر ہوں اللہ کے رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جب کپڑا کھلا ہو تو اس کے کناروں کو مخالفت سمتوں میں میں لےجاؤ اور اگر تنگ ہو تو اس کو کمرکے اوپر باندھ لو۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7516  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الاحمق:
بے وقوف،
لیکن یہاں ناواقف اور جاہل مراد ہے کہ وہ مجھے اس طرح نماز پڑھتا دیکھ کر مجھ سے سیکھ لے کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے،
(2)
نخامة:
بھینی،
رینٹ،
ناک کا فضلہ،
بلغم کو بھی کہہ دیتے ہیں،
(3)
يمدر الحوض:
حوض کی لپائی کرے،
اس کو ٹھیک ٹھاک کرے،
(4)
افهقناه:
ہم نے اس حوض کو بھردیا،
(5)
اشرع ناقته:
پانی پینے کے لیے اپنی اونٹنی کی مہار کو ڈھیلا کردیا،
اس کو پانی پلانے لگے۔
(6)
شنق لها:
اس کی مہار کوکھینچا۔
(7)
فشجت:
اونٹنی نے بول کے لیے اپنی ٹانگیں کشادہ کیں کھولیں۔
(8)
ذباذب،
مفرد ذبذب ہے،
یعنی اهداب،
ڈورے،
(9)
تواقصت عليها:
چادر کو گردن سےروک لیا۔
(10)
يرمقئي:
مجھے گھوررہے تھے،
مجھ پر نظر جمائے ہوئے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7516