صحيح مسلم
كِتَاب التَّفْسِيرِ -- قران مجيد كي تفسير كا بيان
1ق. بَابٌ فِي تَفْسِيرِ آيَاتٍ مُّتَفَرِّقَةٍ
باب: متفرق آیات کی تفسیر کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7525
حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَهُوَ ابْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ الْيَهُودَ، قَالُوا لِعُمَرَ " إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً لَوْ أُنْزِلَتْ فِينَا لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي لَأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ وَأَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ، وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أُنْزِلَتْ، أُنْزِلَتْ بِعَرَفَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: أَشُكُّ كَانَ يَوْمَ جُمُعَةٍ أَمْ لَا يَعْنِي الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي سورة المائدة آية 3 ".
سفیان نے قیس بن مسلم سے اور انھوں نے طارق بن شہاب سے روایت کی کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ لوگ (مسلمان) ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہمارے ہاں نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جانتا ہوں، وہ آیت کس جگہ اور کس دن نازل ہوئی تھی اور جس وقت وہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تھے۔یہ آیت عرفہ (کے مقام) پر نازل ہوئی تھی اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں تھے۔سفیان نے کہا مجھے شک ہے کہ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا تھا) جمعہ کادن تھا یا نہیں؟ان کی مراد اس آیت سے تھی؛"آج میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔"
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:آپ لوگ(مسلمان) ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہمارے ہاں نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:میں جانتا ہوں،وہ آیت کس جگہ اور کس دن نازل ہوئی تھی اور جس وقت وہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تھے۔یہ آیت عرفہ(کے مقام) پر نازل ہوئی تھی اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں تھے۔سفیان نے کہا مجھے شک ہے کہ جمعہ کادن تھا یا نہیں؟ان کی مراد اس آیت سے تھی؛"آج میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔"(المائدہ:آیت نمبر3)
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7525  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ آیت مبارکہ دو عیدوں کے دن،
میدان عرفات میں اتری،
ہفتہ کی عید یعنی جمعہ کا دن تھا اور سالانہ عید،
عرفہ کا دن تھا اور مسلمانوں کے لیےیہ دونوں عید کے دن ہیں،
کیونکہ عرفہ کادن،
عیدالاضحیٰ کا پیش خیمہ ہے اور مسلمانوں کا سب سےبڑا اجتماع ہے،
اسی دن عرفات کے میدان میں ہوتا ہے،
اپنے طور پر عید کا دن مقرر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
بعض حضرات نے اس حدیث سےاستدلال کرتے ہوئے لکھا ہے،
(اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کامیابی کےدن کو خوشی کا دن مناناجائز اور صحابہ سے ثابت ہے،
ورنہ حضرت عمرو،
ابن عباس رضی اللہ عنھم صاف فرمادیتے کہ جس دن کوئی خوشی کاواقعہ ہواس کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانا ہم بدعت جانتےہیں،
اس سے ثابت ہوا کہ عید میلاد منانا جائز ہے،
کیونکہ وہ اعظم نعم الٰہیہ کی یادگار و شکر گزاری ہے۔
''(خزائن العرفان از مولانا نعیم مراد آبادی،
ص171)

سوال یہ ہے کہ اگر کسی خوشی کے واقعہ کی یادگار قائم کرنااور اس روز کو عید مناناصحابہ کرام کے نزدیک جائز تھا،
تو انہوں نے ہر سال تکمیل قرآن کی یادگار کیوں نہیں منائی اور اس کے لیے عید والا جشن کیوں قائم نہ کیا اور کیا آج مسلمان تکمیل قرآن کا جشن،
نوذالحجہ کو مناتے ہیں اور عید میلادالنبی کی طرح جلسے اور جلوس نکالتے ہیں،
صحابہ کرام نے غزوہ بدر کا جشن منایا،
فتح مکہ کے دن کو عیدکا دن قرار پایایاعیدمیلادالنبی کےلیے،
آپ کی پیدائش کے دن کو عید کا دن قرار دیا،
ائمہ اربعہ میں سے کسی نے کسی تیسری عید کی نشان دہی کی اور عیدین کی طرح اپنی کتابوں میں اس کے لیے ابواب قائم کیے؟عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردیں ہیں اسی طرح عرفہ اور جمعہ کا دن پہلے سے عید کا دن ہے نہ کہ قرآن کے نزول کی تکمیل کے بعد۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7525