صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
96. بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1390
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِلَالٍ هُوَ الْوَزَّانُ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي لَمْ يَقُمْ مِنْهُ:" لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ، لَوْلَا ذَلِكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ غَيْرَ أَنَّهُ خَشِيَ أَوْ خُشِيَ أَنَّ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا"، وَعَنْ هِلَالٍ , قَالَ: كَنَّانِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَلَمْ يُولَدْ لِي.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہلال بن حمید نے ‘ ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانبر نہ ہو سکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی یہود و نصاریٰ پر لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔ اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن ڈر اس کا ہے کہ کہیں اسے بھی لوگ سجدہ گاہ نہ بنا لیں۔ اور ہلال سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر نے میری کنیت (ابوعوانہ یعنی عوانہ کے والد) رکھ دی تھی ورنہ میرے کوئی اولاد نہ تھی۔
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت قبل الحديث 1330  
´قبروں پر مسجد بنانا مکروہ ہے`
«وَلَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ الله عَنْهُمْ ضَرَبَتِ امْرَأَتُهُ الْقُبَّةَ عَلَى قَبْرِهِ سَنَةً , ثُمَّ رُفِعَتْ فَسَمِعُوا صَائِحًا , يَقُولُ: أَلَا هَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا؟ فَأَجَابَهُ الْآخَرُ بَلْ يَئِسُوا فَانْقَلَبُوا.»
اور جب حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم فوت ہوئے تو ان کی بیوی (فاطمہ بنت حسین) نے ایک سال تک قبر پر خیمہ لگائے رکھا۔ آخر خیمہ اٹھایا گیا تو لوگوں نے ایک آواز سنی کیا ان لوگوں نے جن کو کھویا تھا ‘ ان کو پایا؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ ناامید ہو کر لوٹ گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: Q1330]

فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس پر اعتراض کرتے ہیں:
پس دیکھئے کہ اس حدیث سے مسجد پر قبر بنانے کی کراہیت، جس کا باب میں دعویٰ کیا گیا ہے، مطلق ثابت نہیں ہوتی۔
{أقول:} اللہ اکبر! کس قدر دھوکہ دہی سے کام لیا گیا ہے؟ دعویٰ تو یہ کیا کہ باب اور حدیث میں مطابقت نہیں، اور پیش کیا باب اور ترجمہ باب!

اے جناب! حسن بن حسین کی وفات کا واقعہ کیا حدیث ہے؟ کیا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو «حدثنا» کے بعد ذکر کیا ہے؟
ہرگز نہیں، بلکہ حدیث تو اس کے بعد خود علیحدہ ہے کہ «لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مسجدا» جس سے قبروں پر مسجد بنانے کی ممانعت صاف عیاں ہے، وفات حسن کا واقعہ تو ترجمہ باب میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ وہ حدیث ہے، جسے آپ نے حدیث کر کے لکھا ہے، جس سے آپ کی حدیث دانی کا راز طشت ازبام ہو گیا۔

افسوس کہ جس کو حدیث کی تعریف معلوم نہ ہو اور یہ تمیز نہ کر سکے کہ حدیث کون سی ہے؟ وہ بھی اس میدان میں قدم مارنے کو آمادہ ہو؟ ہاں اگر یہ سوال کرتے کہ اس باب اور ترجمہ باب میں مطابقت نہیں ہے، تو کسی قدر قابل التفات ہوتا، اور ہم جواب دیتے کہ اس کے نیچے صاف لکھا ہے: یعنی وہ قبر پر قبہ نصب کر کے جب ایک سال تک مقیم رہی۔‏‏‏‏

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومناسبة هذا الأثر لحديث الباب أن المقيم فى الفسطاط لا يخلو من الصلاة هناك، فيلزم اتخاذ المسجد عند القبر، وقد يكون القبر فى جهة القبلة، فتزداد الكراهة.»

نیز فرماتے ہیں:
«وإنما ذكره البخاري لموافقته للأدلة الشرعية، لا لأنه دليل برأسه.» [فتح الباري 200/3]
تو پنج وقتی نماز کے لیے خاص مصلٰی کے طور پر ضرور کوئی جگہ مقرر کی ہو گی، اور اس میں نماز ادا کرتی ہو گی، یہ نماز اس کی اس میں ناجائز ہوئی۔
افسوس کہ جس کتاب سے آپ اعتراض کرتے ہیں، اسی کے نیچے مطابقت بتلا دی گئی ہے۔
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 103   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1390  
1390. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس مرض میں جس سے آپ صحت یاب نہ ہوئے تھے،فرمایا:اللہ تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء ؑ کی قبروں کو مساجد بنالیا۔ اگر آپ کی قبر کو مسجد بنالینے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اسے ضرور ظاہر کردیاجاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1390]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کے متعلق معلومات مہیا کی جائیں کہ وہ مسنم، یعنی زمین پر کوہان شتر کی طرح ابھری ہوئی تھی یا مسطح، یعنی زمین کے برابر تھی، اسی طرح وہ نمایاں تھی یا غیر نمایاں، نیز گھر میں قبر بنانا کیسا ہے؟ اس سلسلے میں چند اصولی باتیں حسب ذیل ہیں:
مسلمانوں میں سے جو فوت ہو جائیں انہیں قبرستان میں دفن کیا جائے تاکہ زائرین کی دعاؤں سے انہیں فائدہ پہنچے، گھروں میں دفن کرنا شریعت کے ہاں پسندیدہ نہیں، کیونکہ گھروں میں نوافل وغیرہ پڑھنے کا حکم ہے جبکہ قبروں کے مقامات پر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو جو گھر میں دفن کیا گیا یہ آپ کی خصوصیت تھی، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کے دفن کے متعلق اختلاف ہوا۔
کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کو مسجد میں دفن کیا جائے۔
کسی نے کہا کہ مسلمانوں کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا جائے۔
حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، پھر آپ کے بستر کی جگہ پر دفن کیا گیا۔
(سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1628)
ترمذی کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اسی جگہ فوت کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کو اس کا دفن کرنا منظور ہوتا ہے۔
(جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 1018)
چنانچہ امام بخاری ؒ نے پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے دفن ہونے کی جگہ کا تعین کیا ہے۔
دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت کی ہے جس کے پیش نظر آپ کو گھر کی چار دیواری میں دفن کیا گیا اور آپ کی قبر مبارک کو برسرعام نہیں بنایا گیا۔
وہ اندیشہ یہ تھا کہ مبادا یہودونصاریٰ کی طرح اہل اسلام بھی آپ کی قبر مبارک کو عبادت گاہ بنا لیں۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔
(مسندأحمد: 367/2)
عید سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا۔
ان خطرات کے سدباب کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کو گھر کی چار دیواری کے اندر بنایا گیا۔
دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت مقصود ہے۔
تیسری حدیث میں آپ کی قبر کے متعلق وضاحت ہے کہ وہ کوہان نما تھی، زمین پر بچھی ہوئی نہ تھی۔
ایک اور روایت میں امام قاسم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور عمر ؓ کی قبروں کو دیکھا وہ نہ بلند تھیں اور نہ زمین کے ساتھ ہی ملی ہوئی تھیں۔
(المستدرك للحاکم: 369/1)
رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک زمین سے ایک بالشت اونچی بنائی گئی تھی، (السنن الکبریٰ للبیھقي: 410/3)
اس لیے قبر سے جتنی مٹی نکلے وہی قبر پر ڈال دی جائے، اضافی مٹی ڈالنے سے قبر اونچی ہو جائے گی، چنانچہ حدیث میں بھی اس کی ممانعت ہے۔
(السنن النسائي، الجنائز، حدیث: 2030) (2)
حافظ ابن حجر ؒ نے دیوار گرنے کا سبب بیان کیا ہے کہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88 ہجری میں مسجد نبوی کی توسیع کا پروگرام بنایا۔
اس سلسلے میں انہوں نے امہات المومنین کے حجروں کو خریدا تاکہ انہیں مسجد میں شامل کر دیا جائے، چنانچہ انہوں نے اپنے گورنر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو لکھا کہ ان حجروں کو گرا کر مسجد کو وسیع کر دیا جائے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنی نگرانی میں انہیں گرانے کا حکم دیا۔
جب حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کے اردگرد عمارت مکمل ہو گئی تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کو گرانے کا حکم دیا جس میں رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ مدفون تھے۔
حجرہ گرنے کے بعد قبریں نمایاں ہو گئیں اور ان پر جو کنکریاں اور ریت ڈالی گئی تھی وہ ایک طرف ہو گئی۔
اس دوران میں پاؤں ننگے ہونے کا واقعہ پیش آیا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔
آپ نے اپنے غلام حضرت مزاحم کو قبریں درست کرنے کا حکم دیا۔
رجاء بن حیوہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں حضرت ابوبکر اور حضرت ابوبکر کے پہلو میں حضرت عمر ؓ کی قبر ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے دائیں جانب اور حضرت عمر ؓ آپ کے بائیں جانب ہیں۔
اس روایت کی سند انتہائی کمزور ہے۔
اس کی تاویل تو کی جا سکتی ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں۔
(فتح الباري: 326/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1390