سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
38. باب سُؤْرِ الْهِرَّةِ
باب: بلی کے جھوٹے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 76
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ صَالِحِ بْنِ دِينَارٍ التَّمَّارِ، عَنْ أُمِّهِ، أَنَّ مَوْلَاتَهَا أَرْسَلَتْهَا بِهَرِيسَةٍ إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَوَجَدَتْهَا تُصَلِّي، فَأَشَارَتْ إِلَيَّ أَنْ ضَعِيهَا، فَجَاءَتْ هِرَّةٌ فَأَكَلَتْ مِنْهَا، فَلَمَّا انْصَرَفَتْ أَكَلَتْ مِنْ حَيْثُ أَكَلَتِ الْهِرَّةُ، فَقَالَتْ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ، إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ"، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَوَضَّأُ بِفَضْلِهَا.
داود بن صالح بن دینار تمار اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی مالکن نے انہیں ہریسہ (ایک قسم کا کھانا) دے کر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا تو انہوں نے عائشہ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے کھانا رکھ دینے کا اشارہ کیا (میں نے کھانا رکھ دیا)، اتنے میں ایک بلی آ کر اس میں سے کچھ کھا گئی، جب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نماز سے فارغ ہوئیں تو بلی نے جہاں سے کھایا تھا وہیں سے کھانے لگیں اور بولیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: یہ ناپاک نہیں ہے، کیونکہ یہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہے، اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلی کے جھوٹے سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، تحفة الأشراف (17979) وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطھارة 32 (367) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 76  
´بلی ناپاک نہیں`
«. . . إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ، إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ . . .»
. . . یہ ناپاک نہیں ہے، کیونکہ یہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 76]
فوائد و مسائل:
➊ یہ روایت شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہے۔
«طوافين» اور «طوافات» کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ مکھی، مچھر، بھڑ، کوا، اور مرغی وغیرہ جانوروں سے تحفظ ممکن نہیں ہے اور ان کا جھوٹا بھی پاک ہے۔ اس کا کھا لینا اور اس سے وضو کر لینا سب درست ہے۔
➌ خسر، محرم رشتوں میں سے ہے اس سے پردہ نہیں اور خدمت اس کا حق ہے۔
➍ جانوروں سے حسن معاملہ حسن اخلاق کا حصہ اور اجر کا باعث ہے۔
➎ ہمسایوں اور دوستوں کو تحائف یا ہدایا دینا اور کھانا بھجوانا ایک اسلامی شعار ہے۔
➏ نماز میں مجبوری ہو تو مناسب اشارہ جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 76   
  الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 76  
´بلی کے جھوٹے کا مسئلہ`
«. . . فَلَمَّا انْصَرَفَتْ أَكَلَتْ مِنْ حَيْثُ أَكَلَتِ الْهِرَّةُ، فَقَالَتْ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ . . .»
. . . جب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نماز سے فارغ ہوئیں تو بلی نے جہاں سے کھایا تھا وہیں سے کھانے لگیں اور بولیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: یہ ناپاک نہیں ہے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 76]

فقہ الحدیث:
◈ امام تقی الدین احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتوی ان کی دو کتابوں میں موجود ہے۔
[الفتاوى الكبرى لابن تيمية جلد 5،ص314]
[اختيارات فقهيه]
«وإذا أكلت الهرة فأرة ونحوها فإذا طال الفصل طهر فمها بريقها لأجل الحاجة وهذا أقوى الأقوال واختاره طائفة من أصحاب أحمد وأبي حنيفة .والله أعلم» [الاختيارات الفقهية ص399]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر بلی چوہا یا اس جیسی چیز کھا لے اور زیادہ وقت گزر جائے تو تھوک سے اس کا منہ پاک ہو جاتا ہے ضرورت کی وجہ سے، یہ سب سے قوی قول ہے جسے اختیار کیا ہے امام احمد رحمہ اللہ کے کچھ اصحاب اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب کی ایک جماعت نے۔ [كتاب الاختيارات العلمية]
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 37201   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 76  
جس پانی میں بلی منہ ڈال جائے اس کا حکم
ایسے پانی سے وضو کرنا مباح و درست ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل اس پر شاہد ہیں:
➊ حضرت کبثہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے لیے وضو کا پانی ڈالا۔ (اچانک) ایک بلی آئی اور اس برتن سے پینے لگی۔ اس پر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے مزید اس برتن کو بلی کے لیے ٹیڑھا کر دیا حتی کہ بلی نے اس سے پی لیا۔ حضرت کبثہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت مجھے دیکھ لیا جب میں انہیں دیکھ رہی تھی تو انہوں نے کہا: اے بھتیجی! کیا تو تعجب کرتی ہے؟ تو میں نے کہا: ہاں پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ»
یہ نجس و پلید نہیں ہے، یہ تو تم پر پھرنے والی ہے۔ [أبو داود 75] ۱؎
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
«وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَوَضَّأُ بِفَضْلِهَا»
بے شک میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے (یعنی بلی کے) بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیتے تھے۔ [أبو داود 76] ۲؎
(امام شافعی، امام احمد، امام مالک) بلی کا جوٹھا پانی پاک ہے۔ امام لیث، امام ثوری، امام اوزاعی، امام اسحاق، امام ابوثور، امام ابوعبید، امام علقمہ، امام ابراہیم، امام عطاء، امام حسن، امام ابن عبدالبر، اور امام ابویوسف رحمہ اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔
(امام ابوحنیفہ) بلی کا جوٹھا درندے کے جوٹھے کی طرح نجس ہے، لیکن اس میں کچھ تخفیف کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ بلی کا بچا ہوا کراہت کے ساتھ پاک ہے۔ [المجموع 224/1، المبسوط 38/1]
◈ ان کی دلیل یہ حدیث ہے بلی درندہ ہے۔ [أحمد 327/2] ۳؎
↰ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے:
➊ گذشتہ صحیح حدیث سے اس کی تخصیص ہو جاتی ہے۔
➋ درندگی نجاست کو مستلزم نہیں یعنی یہ ضروری نہیں کہ جو درندہ ہو نجس بھی ہو۔ [نيل الأوطار 79/1]
(راجح) ائمہ ثلاثہ کا موقف برحق ہے۔ [تحفة الأحوذي 326/1]

6- ایک من گھڑت روایت
جس روایت میں مذکور ہے:
«حب الهرة من الإيمانه»
بلی سے محبت کرنا ایمان سے ہے۔
وہ موضوع ومن گھڑت ہے۔ [تحفة الأحوذي 327/1] ۴؎
* * * * * * * * * * * * * *
۱؎ [حسن: صحيح أبى داود 68، كتاب الطهارة: باب سؤر الهرة، أبو داود 75، ترمذي 92، ابن ماجة 367، نسائي 55/1، مؤطا 23/1، مسند شافعي 39، أحمد 303/5، ابن خزيمة 104، دارقطني 70/1، حاكم160/1، بيهقي 240/1، عبدالرزاق 353، ابن أبى شيبة 31/1، شرح السنة 376/1، شرح معاني الآثار 18/1، مشكل الآثار 270/3]
۲؎ [صحيح: صحيح أبو داود 69، كتاب الطهارة: باب سؤر الهرة، أبو داود 76، طبراني اوسط 36/1، دارقطني 70/1، مشكل الآثار 270/3، بيهقي 246/1]
۳؎ [أحمد 327/2، دارقطني 63/1، حاكم 183/1]
۴؎ [تحفة الأحوذي 327/1، مرقاة المفاتيح 188/2، كشف الخفاء 415/1]
   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 141