سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
45. باب الإِسْرَافِ فِي الْوَضُوءِ
باب: وضو میں اسراف و فضول خرچی یعنی پانی ضرورت سے زیادہ بہانا درست نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 96
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ، سَمِعَ ابْنَهُ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ عَنْ يَمِينِ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلْتُهَا، فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ، سَلِ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَتَعَوَّذْ بِهِ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الطَّهُورِ وَالدُّعَاءِ".
ابونعامہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو کہتے سنا: اے اللہ! میں جب جنت میں داخل ہوں تو مجھے جنت کے دائیں طرف کا سفید محل عطا فرما، آپ نے کہا: میرے بیٹے! تم اللہ سے جنت طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اس امت میں عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الدعاء 12 (3864)، (تحفة الأشراف: 9664)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/86) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: طہارت میں حد سے تجاوز کا مطلب یہ ہے کہ وضو، غسل یا آب دست میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول تحدید سے زیادہ بلا ضرورت پانی بہایا جائے، اور دعا میں حد سے تجاوز کا مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں چھوڑ کر دوسروں کی تکلفات سے بھری، مقفی اورمسجّع دعائیں پڑھی جائیں، یا حد ادب سے تجاوز ہو، یا صلہ رحمی کے خلاف ہو، یا غیر شرعی خواہش ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 96  
´استنجا، وضو اور غسل وغیرہ میں حد سے زیادہ پانی بہانا ناجائز ہے`
«. . . سَمِعَ ابْنَهُ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ عَنْ يَمِينِ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلْتُهَا، فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ، سَلِ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَتَعَوَّذْ بِهِ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الطَّهُورِ وَالدُّعَاءِ . . .»
. . . ابونعامہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو کہتے سنا: اے اللہ! میں جب جنت میں داخل ہوں تو مجھے جنت کے دائیں طرف کا سفید محل عطا فرما، آپ نے کہا: میرے بیٹے! تم اللہ سے جنت طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اس امت میں عنقریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 96]
فوائد و مسائل:
➊ معلوم ہوا کہ طہارت (استنجاء، وضو اور غسل وغیرہ) میں حد سے زیادہ پانی بہانا ناجائز ہے، بالخصوص استنجاء کے سلسلے میں وہم میں مبتلا رہنا، شریعت نہیں، بلکہ وضو کے بعد شرم گاہ والی جگہ پر چھینٹے مار لینے چاہییں۔
➋ دعا بھی جامع ہونی چاہیے جیسے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور اور مسنون ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 96   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3864  
´دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت۔`
ابونعامہ (قیس بن عبایہ) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یہ دعا مانگتے سنا: «اللهم إني أسألك القصر الأبيض عن يمين الجنة إذا دخلتها» اللہ! جب میں جنت میں جاؤں تو مجھے جنت کی دائیں جانب سفید محل عطا فرما، تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے! اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: عنقریب کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دعا میں حد سے آگے بڑھ جائیں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3864]
اردو حاشہ:
وفائدو مسائل:

(1)
  دعا میں اللہ تعالی کی عظمت و احترام کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

(2)
جوشخص جنت میں پہنچ گیا، اسے وہاں ہر وہ چیز ملے گی جس کی اسے خواہش ہوگی، اس لیے دعا میں جنت کی نعمتوں کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

(3)
جنت الفردوس کی دعا کرنا یا نبیﷺ کے پڑوس کی دعا کرنا درست ہے کیونکہ بعض اعمال پر ان کی بشارت موجود ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3864