سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
49. باب فِي الرَّجُلِ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا
باب: سو کر اٹھنے والا آدمی ہاتھ دھونے سے پہلے اسے برتن میں نہ ڈالے۔
حدیث نمبر: 105
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ:سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ، أَوْ أَيْنَ كَانَتْ تَطُوفُ يَدُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے تین بار دھو نہ لے اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں رہا؟ یا کدھر پھرتا رہا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15458) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 105  
´سو کر اٹھنے والا آدمی ہاتھ دھونے سے پہلے اسے برتن میں نہ ڈالے`
«. . . سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ، أَوْ أَيْنَ كَانَتْ تَطُوفُ يَدُهُ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے تین بار دھو نہ لے اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں رہا؟ یا کدھر پھرتا رہا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 105]
فوائد و مسائل:
➊ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے، البتہ نہر اور بڑا حوض و تالاب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں اور ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی رائے بیان کی ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ حکم استحباب پر مبنی ہے، مگر امام احمد رحمہ اللہ اسے واجب قرار دیتے ہیں، لیکن جمہور کی رائے اقرب الی الصواب ہے، البتہ جب اسے یقین ہو جائے کہ اس کا ہاتھ نجاست و گندگی سے آلودہ ہوا ہے، تو ہاتھ برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھونا ضروری ہے۔
➋ مذکورہ بالا حدیث میں صرف رات کا تذکر ہ اس لیے کہا گیا ہے کہ رات میں نجاست لگ جانے کا زیادہ احتمال ہوتا ہے بہ نسبت دن کے، بہرحال مذکورہ حکم دن اور رات دونوں کے لیے یکساں ہے، لہٰذا دن کو سو کر جاگے تو بھی اس ارشاد پر عمل کرنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 105   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 1  
´اللہ عزوجل کے فرمان: «إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا ...» ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے جاگ جائے تو اپنا ہاتھ اپنے وضو کے پانی میں نہ ڈالے، یہاں تک کہ اسے تین بار دھو لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 1]
1۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرنے کے لیے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے انہیں تین دفعہ دھو لینا چاہیے، اس کے بعد وضو کا آغاز کرنا چاہیے۔
➋ اس سے یہ مسئلہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ وضو کا پانی نجس نہ ہو جیسا کہ دیگر احادیث میں اسی کی صراحت آئی ہے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حدیث: 185، 186 و صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 235]
➌ اس حدیث میں رات کی نیند سے اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے کا ذکر ہے، مگر یہ علت عام ہے اور یہی صورت دن کی نیند میں بھی پیش آ سکتی ہے، اس لیے عموم علت کی وجہ سے ہر نیند کے بعد ہاتھ دھونا ضروری ہیں۔
➍ وضو کا مقصد صرف شرعی طہارت ہی نہیں بلکہ جسمانی صفائی بھی ہے۔
➎ نظر نہ آنے والی نجاست، مثلاًً: پیشاب خشک ہو جائے، یا مشکوک چیز لگ جائے تو انہیں تین دفعہ دھونا بہتر ہے، اس طرح وہ پاک ہو جائے گی، البتہ اگر نجاست نظر آ رہی ہو یا محسوس ہو رہی ہو تو اس کا زائل کرنا ضروری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 161  
´نیند سے وضو کے ٹوٹ جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پر تین مرتبہ پانی نہ ڈال لے کیونکہ اسے خبر نہیں کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 161]
161۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تبھی تو جاگنے کے بعد پانی کے برتن کا ذکر ہے۔
➋ نیند سے اس بنا پر وضو ٹوٹتا ہے کہ اس میں جسم سے ہوا خارج ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور سونے والے کو اس کا پتا نہیں چلتا، اسی طرح اگر اونگھ اس درجہ غالب ہو کہ شعور و ادراک ہی ختم ہو جائے تو یہ بھی نیند ہے اور مطلق نیند ناقض وضو ہے، خواہ جس حالت میں بھی آ جائے کیونکہ مطلق نیند آنے پر وضو کے ٹوٹنے کی احادیث موجود ہیں۔ لیکن اگر نیند میں حواس قائم ہوں، شعور زندہ ہو تو ہماری زبان میں اسے اونگھ کہتے ہیں، یہ کسی بھی حالت میں آ جائے، وضو نہیں ٹوٹتا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 161   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 442  
´نیند کی وجہ سے وضو کا حکم۔`
سعید بن مسیب کہتے ہیں: مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رات میں اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن میں داخل نہ کرے، یہاں تک کہ دو یا تین مرتبہ اس پر پانی ڈال لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 442]
442 ۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 161، 162 اور ان کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 442   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث393  
´کیا سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے سے پہلے آدمی اپنے ہاتھ کو برتن میں ڈالے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص رات کو سو کر بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے، جب تک کہ دو یا تین مرتبہ اس پہ پانی نہ بہا لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 393]
اردو حاشہ:
(1)
رات اور دن کا حکم ایک ہی ہے۔
حدیث میں رات کا لفظ اس لیے بولا کیا ہے کہ انسان رات ہی کو زیادہ سوتا ہے۔

(2)
پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھونے کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ نیند میں انسان کو اپنے افعال وحرکات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا، اس لیے ممکن ہے کہ ہاتھ ناک وغیرہ یا پردے کے اعضاء کو یا زمین میں سونے کی صورت میں مٹی وغیرہ میں لگ جائے لہذا صفائی اور طہارت کا تقاضہ ہے کہ نیند سے جاگ کر ہاتھ دھولیے جائیں۔

(3)
دو تین دفعہ دھونے کا حکم اس لیے ہے کہ ہاتھ اچھی طرح صاف ہوجائے اور کسی قسم کا شک باقی نہ رہے اس لیے اگر ایک بار دھونے سے صفائی کا یقین ہوجائےتوکافی ہے۔

(4)
بعض علماء نے برتن کے لفظ سے استدلال کیا ہے کہ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے البتہ نہر اور حوض وتالاب اس حکم سے مستثنی ہیں۔
اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حوض اور تالاب کا پانی بہت زیادہ ہوتا ہے۔
اس میں قلیل نجاست مل جانے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا اور مذکورہ بالا صورت میں تو یہ نجاست بھی یقینی نہیں بلکہ نجاست کا محض احتمال ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 393   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 24  
´جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھو نہ لے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو نیند سے اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن ۱؎ میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پر دو یا تین بار پانی نہ ڈال لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 24]
اردو حاشہ:
1؎:
برتن کی قید سے حوض،
تالاب اور نہر وغیرہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے کیونکہ ان کا پانی قلتین سے زیادہ ہوتا ہے،
پس سو کر اٹھنے کے بعد ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی نے باب کی اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے،
یہی جمہور کا قول ہے،
احمد اور اسحاق بن راہویہ نے اسے وجوب پر محمول کیا ہے،
لیکن احمد نے اسے رات کی نیند کے ساتھ خاص کر دیا ہے اور اسحاق بن راہویہ نے اسے عام رکھا ہے،
صاحب تحفہ الأحوذی نے اسحاق بن راہویہ کے مذہب کو راجح قرار دیا ہے،
احتیاط اسی میں ہے،
رات کی قید صرف اس لیے ہے کہ آدمی رات میں عموماً سوتا ہے،
نیز صحیحین کی روایات میں ((مِنَ اللَّيْلِ)) کی بجائے ((مِنْ نَوْمِه)) اپنی نیند سے ہے تو یہ رات اور دن ہرنیند کے لیے عام ہوا۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 24