سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
55. باب فِي الاِسْتِنْثَارِ
باب: ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 144
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ: إِذَا تَوَضَّأْتَ فَمَضْمِضْ.
اس طریق سے بھی ابن جریج سے یہی حدیث مروی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو کلی کرو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 11172) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 36  
´اعضائے وضو کو اچھی اور پوری طرح دھونا `
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: اسبغ الوضوء،‏‏‏‏ وخلل بين الاصابع،‏‏‏‏ وبالغ في الاستنشاق إلا ان تكون صائما . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو اچھی طرح پورا کرو اور انگلیوں کا خلال کرو، ناک میں پانی اچھی طرح چڑھایا کرو مگر روزے کی حالت میں . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 36]

لغوی تشریح:
«أَسْبِغُ» «إِسْبَاغ» سے فعل امر ہے۔ «اسباغ» کے معنی ہیں: اعضائے وضو کو پوری طرح اور اچھی طرح دھونا۔
«خَلِّلُ» «تَخْلِيل» سے فعل امر ہے۔ خلال یہ ہے کہ انگلیوں کے درمیان انگلی اس طرح داخل کرے کہ دونوں انگلیوں کا درمیانی حصہ پوری طرح تر ہو جائے۔
«إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا» یعنی روزے دار پانی زیادہ اوپر نہ چڑھائے تاکہ کہیں پانی گلے میں نہ اتر جائے اور روزہ ٹوٹ جائے۔ روزے کے علاوہ عام حالات میں ناک کے اندرون پانی مبالغے سے چڑھانا مستحب ہے۔

فائدہ:
اعضائے وضو کو اچھی اور پوری طرح دھونا چاہیے اور ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا چاہئیے تاکہ کہیں کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے۔

راوی حدیث:
SR سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ ER لام کے فتحہ اور قاف کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ «صبرة» صاد کے فتحہ اور با کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ نسب نامہ یوں ہے: لقیط بن صبرۃ بن عبداللہ بن المنتفق بن عامر العامری رضی اللہ عنہ وفد بنو منتفق کے قائد تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ لقیط بن عامر بن صبرہ ہیں جو ابورزین عقیلی کے نام سے مشہور ہیں۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے یہی ہے۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ امام علی بن مدینی اور امام مسلم رحمہ اللہ وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [الإصابة تهذيب]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 36