صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
50. بَابُ الْحَيَاءِ فِي الْعِلْمِ:
باب: اس بیان میں کہ حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے!۔
حدیث نمبر: 131
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَهِيَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي، فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے۔ جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی (خود) اس کے بارہ میں بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (عمر رضی اللہ عنہ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو (اس وقت) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 630  
´سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صاحب علم تھے`
«. . . 298- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وهى مثل الرجل المسلم، فحدثوني ما هي؟ فوقع الناس فى شجر البوادي، ووقع فى نفسي أنها النخلة، فاستحييت. فقالوا: حدثنا يا رسول الله ما هي؟ فقال: هي النخلة. قال عبد الله بن عمر: فحدثت بالذي وقع فى نفسي من ذلك عمر بن الخطاب، فقال عمر: لأن تكون قلتها أحب إلى من كذا وكذا. كمل حديثه عن عبد الله بن عمر، وتقدم حديثه لا ينظر الله فى باب زيد وحدث في صلاة الليل فى باب نافع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے (سارا سال) نہیں گرتے اور اس کی مثال مسلمان آدمی کی طرح ہے، مجھے بتاؤ کہ یہ کون سا درخت ہے؟ تو لوگ جنگل کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں حیا کی وجہ سے نہ بولا: پھر لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمیں بتائیے کہ یہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر میں نے (اپنے والد) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے وہ بات کہی جو میرے دل میں آئی تھی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم یہ بات (اس وقت) کہہ دیتے تو میرے نزدیک فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتی۔ عبداللہ بن دینار کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ حدیثیں مکمل ہو گئیں اور ایک حدیث زید (بن اسلم) کے باب [ ح ۱۶۵] میں گزر چکی ہے اور دوسری نافع کے باب [ ح ۲۰۲] میں گزر چکی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 630]

تخریج الحدیث: [وأخرجه الجوهري486، من حديث مالك به ورواه البخاري 131، من حديث مالك، ومسلم 2811، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه:
➊ یہ روایت محمد بن الحسن الشیبانی کی طرف منسوب [الموطأ ص399، 400 ح964] میں بھی امام مالک کی سند سے موجود ہے۔
➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بہت بڑے عالم تھے۔
➌ علم کی باتیں پوچھنے اور بتانے سے شرم نہیں کرنی چاہئے۔
➍ کھجور کا درخت برکت والا درخت ہے۔
➎ بعض اوقات پہیلی نما سوال کرکے شاگردوں کے علم کا امتحان لیا جاسکتا ہے۔
➏ علم سمجھنے کے لئے پوری کوشش کے ساتھ ہر وقت مصروف رہنا چاہئے۔
➐ اگر شریعت کی مخالفت نہ ہو رہی ہو تو ہر وقت بڑوں کا احترام ضروری ہے۔
➑ کسی چیز کے ساتھ مشابہت کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں چیزیں ہر صفت میں ایک جیسی ہوں۔
➒ صحیح سچے مسلمان کا کتاب وسنت کے مطابق ہر کام خیر ہی خیر ہوتا ہے۔
➓ مزید فوائد کے لئے دیکھئے [فتح الباري 1/145 147 ح61]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 298   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 61  
´لفظ «حدثنا أو، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 61]

تشریح:
اس روایت کو حضرت امام قدس سرہ اس باب میں اس لیے لائے ہیں کہ اس میں لفظ «حدثنا وحدثوني» خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زبانوں سے بولے گئے ہیں۔ پس ثابت ہو گیا کہ یہ اصطلاحات عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروج ہیں۔ بلکہ خود قرآن مجید ہی سے ان سب کا ثبوت ہے۔ جیسا کہ سورۃ تحریم میں ہے «قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَـذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ» [66-التحريم:3] (اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس بارے میں کس نے خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو اس نے خبر دی جو جاننے والا خبر رکھنے والا پروردگار عالم ہے۔) پس منکرین حدیث کی یہ ہفوات کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہے بالکل غلط اور قرآن مجید کے بالکل خلاف اور واقعات کے بھی خلاف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 61   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 62  
´طالب علموں کا امتحان لینا`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 62]

تشریح:
اس حدیث اور واقعہ نبوی سے طالب علموں کا امتحان لینا ثابت ہوا۔ جب کہ کھجور کے درخت سے مسلمان کی تشبیہ اس طرح ہوئی کہ مسلمان «متوكل على الله» ہو کر ہر حال میں ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 62   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 131  
´حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَهِيَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي، فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا . . .»
. . . عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے۔ جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی (خود) اس کے بارہ میں بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (عمر رضی اللہ عنہ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو (اس وقت) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الْحَيَاءِ فِي الْعِلْمِ:: 131]

تشریح:
اس سے قبل بھی دوسرے باب کے تحت یہ حدیث آ چکی ہے۔ یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں شرم کا ذکر ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگر شرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت انہیں حاصل ہو جاتی، جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا کہ اگر تم بتلا دیتے تو میرے لیے بہت بڑی خوشی ہوتی۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر شرم سے کام نہ لینا چاہئیے۔ اس سے اولاد کی نیکیوں اور علمی صلاحیتوں پر والدین کا خوش ہونا بھی ثابت ہوا جو ایک فطری امر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 131   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 131  
131. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے۔ اس کی شان مسلمان کی طرح ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے، لیکن میرے ذہن میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں: (لیکن) مجھے شرم دامن گیر ہو گئی۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہی بتائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد گرامی (حضرت عمر ؓ) سے وہ بات بیان کی جو میرے دل میں آئی تھی تو انہوں نے کہا: کاش! تم نے یہ بات کہہ دی ہوتی تو یہ میرے لیے بڑی دولت ہوتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:131]
حدیث حاشیہ:
اس سے قبل بھی دوسرے باب کے تحت یہ حدیث آچکی ہے۔
یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ ا س میں شرم کا ذکر ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگرشرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت انھیں حاصل ہوجاتی، جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا کہ اگر تم بتلا دیتے تو میرے لیے بہت بڑی خوشی ہوتی۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر شرم سے کام نہ لینا چاہئیے۔
اس سے اولاد کی نیکیوں اور علمی صلاحیتوں پر والدین کا خوش ہونا بھی ثابت ہوا جو ایک فطری امرہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 131   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:131  
131. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے۔ اس کی شان مسلمان کی طرح ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے، لیکن میرے ذہن میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں: (لیکن) مجھے شرم دامن گیر ہو گئی۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہی بتائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد گرامی (حضرت عمر ؓ) سے وہ بات بیان کی جو میرے دل میں آئی تھی تو انہوں نے کہا: کاش! تم نے یہ بات کہہ دی ہوتی تو یہ میرے لیے بڑی دولت ہوتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:131]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیا کے متعلق جو عنوان قائم کیا ہے وہ مجمل ہے۔
اس سلسلے میں کوئی صریح حکم بیان نہیں کیا قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں۔
اس کا مثبت یہ ہے کہ سائل کو علمی مسائل دریافت کرنے کے لیے حیا داری کو قائم رکھنا چاہیے۔
اس سلسلے میں جرات و دلیری اور بے باکی مستحسن اقدام نہیں ہے۔
حضرات انصار کی خواتین، حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مکمل شرم و حیا کے ساتھ سوالات کر کے تفقہ فی الدین حاصل کیا۔
دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ صفت حیا جو سراسر محمود ہے اسے غلط استعمال کر کے علم سے محرومی کا سامان نہیں کرنا چاہیے حضرت مجاہد کے ارشاد کا یہی مطلب ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ طلب علم کے سلسلے میں حیا کو مستحسن قرار نہیں دیتے اور مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اظہار افسوس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اگر اکابر کی موجودگی کو اپنے بیان کے لیے رکاوٹ خیال کرتے تھے تو وہ کسی دوسرے کو بتا دیتے تاکہ وہ ان کی طرف سے ترجمانی کر دیتا۔
آئندہ باب قائم کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(فتح الباري: 303/1)
۔
لیکن حافظ ابن حجر کی وضاحت پر دل مطمئن نہیں ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیا کو مستحسن قراردیتے ہیں۔
انھوں نے حصول علم کے لیے سوال کرنے میں حیا کا استعمال نہیں کیا بلکہ جواب دینے میں حیا داری سے کام لیا ہے، اس لیے کہ بزرگوں کا احترام بھی ہمارے اسلامی آداب کا ایک اہم حصہ ہے۔
جہاں تک علمی بات معلوم کرنے کا تعلق ہے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما یقینی طور پر جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس پہیلی کا جواب دیں گے۔
باقی رہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اظہار افسوس، تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے ان کی خاموشی کو برا محسوس کیا ہو۔
بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خاموشی غیر مستحسن نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 131