سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
75. باب فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ
باب: آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 188
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ أَبِي صَخْرَةَ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:" ضِفْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَأَمَرَ بِجَنْبٍ فَشُوِيَ، وَأَخَذَ الشَّفْرَةَ فَجَعَلَ يَحُزُّ لِي بِهَا مِنْهُ، قَالَ: فَجَاءَ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ، قَالَ: فَأَلْقَى الشَّفْرَةَ، وَقَالَ: مَا لَهُ تَرِبَتْ يَدَاهُ؟ وَقَامَ يُصَلِّ"، زَادَ الْأَنْبَارِيُّ: وَكَانَ شَارِبِي وَفَى فَقَصَّهُ لِي عَلَى سِوَاكٍ، أَوْ قَالَ: أَقُصُّهُ لَكَ عَلَى سِوَاكٍ.
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہوا تو آپ نے بکری کی ران بھوننے کا حکم دیا، وہ بھونی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، اور میرے لیے اس میں سے گوشت کاٹنے لگے، اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دی، تو آپ نے چھری رکھ دی، اور فرمایا: اسے کیا ہو گیا؟ اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں؟، اور اٹھ کر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے۔ انباری کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: میری موچھیں بڑھ گئی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھوں کے تلے ایک مسواک رکھ کر ان کو کتر دیا، یا فرمایا: میں ایک مسواک رکھ کر تمہارے یہ بال کتر دوں گا۔‏‏‏‏

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏* تخريج:تفرد بہ أبو داود، سنن الترمذی/الشمائل (165)، (تحفة الأشراف: 11530)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/252) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: حدیث سے ثابت ہوا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم نہیں آتا بلکہ یہ حکم منسوخ ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ کے لیے آپ نے جو کلمہ استعمال فرمایا وہ عام سا جملہ تھا، بددعا مقصود نہ تھی۔ یعنی اسے اتنی جلدی پڑی تھی کہ میرے کھانے سے فارغ ہو جانے کا انتظار تک نہیں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا اس سے استدلال یہ ہے کہ مقرر شدہ امام کو کھانے کی بنا پر تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ مونچھیں چھوٹی ہونی چاہییں اور بڑے کو حق حاصل ہے کہ اپنے عزیز کی بڑھی ہوئی مونچھیں کتر دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 188  
´آگ پر پکی چیز استعمال کرنے سے وضو `
«. . . عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:" ضِفْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَأَمَرَ بِجَنْبٍ فَشُوِيَ، وَأَخَذَ الشَّفْرَةَ فَجَعَلَ يَحُزُّ لِي بِهَا مِنْهُ، قَالَ: فَجَاءَ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ، قَالَ: فَأَلْقَى الشَّفْرَةَ، وَقَالَ: مَا لَهُ تَرِبَتْ يَدَاهُ؟ وَقَامَ يُصَلِّ . . .»
. . . مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہوا تو آپ نے بکری کی ران بھوننے کا حکم دیا، وہ بھونی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، اور میرے لیے اس میں سے گوشت کاٹنے لگے، اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دی، تو آپ نے چھری رکھ دی، اور فرمایا: اسے کیا ہو گیا؟ اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں؟، اور اٹھ کر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 188]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو لازم نہیں آتا بلکہ یہ حکم منسوخ ہے۔
➋ اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے الفت کا بیان ہے۔
➌ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے لیے آپ نے جو کلمہ استعمال فرمایا وہ عام سا جملہ تھا، بددعا مقصود نہ تھی۔
➍ امام بخاری رحمہ اللہ کا اس سے استدلال یہ ہے کہ مقرر شدہ امام کو کھانے کی بنا پر تاخیر نہیں کرنی چائیے۔
➎ مونچھیں چھوٹی ہونی چائییں اور بڑے کو حق حاصل ہے کہ اپنے عزیز کی بڑھی ہوئی مونچھیں کتر دے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 188