صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
4. بَابُ مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ:
باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔
لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ» .
‏‏‏‏ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 1404
وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَسْلَمَ , قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ اللَّهِ: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة التوبة آية 34، قَالَ ابْنُ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: مَنْ كَنَزَهَا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا فَوَيْلٌ لَهُ، إِنَّمَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تُنْزَلَ الزَّكَاةُ، فَلَمَّا أُنْزِلَتْ جَعَلَهَا اللَّهُ طُهْرًا لِلْأَمْوَالِ".
ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے میرے والد شبیب نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے خالد بن اسلم نے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ ایک اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر بتلائیے جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ بنا کر رکھتے ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا جواب دیا کہ اگر کسی نے سونا چاندی جمع کیا اور اس کی زکوٰۃ نہ دی تو اس کے لیے «ويل» (خرابی) ہے۔ یہ حکم زکوٰۃ کے احکام نازل ہونے سے پہلے تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا حکم نازل کر دیا تو اب وہی زکوٰۃ مال و دولت کو پاک کر دینے والی ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1404  
1404. حضرت خالد بن اسلم سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ نکلے تو ان سے ایک اعرابی نے دریافت کیا کہ ارشاد باری تعالیٰ:جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا:جس نے مال جمع کیا اور اس کی زکاۃ نہ ادا کی، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ اور آیت میں مذکورہ وعید زکاۃ کے نازل ہونے سے پہلے تھی، جب زکاۃ کا حکم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اموال کی پاکیزگی کا ذریعہ بنادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1404]
حدیث حاشیہ:
یعنی اس مال سے متعلق یہ آیت نہیں ہے ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ﴾ (التوبة: 34)
معلوم ہوا کہ اگر کوئی مال جمع کرے تو گنہگار نہیں، بشرطیکہ زکوٰۃ دیا کرے۔
گو تقویٰ اور فضیلت کے خلاف ہے۔
یہ ترجمہ باب خود ایک حدیث ہے۔
جسے امام مالک نے ابن عمر ؓ سے موقوفاً نکالا ہے اور ابوداؤد نے ایک مرفوع حدیث نکالی جس کا مطلب یہی ہے۔
حدیث لیس فیمادون خمس أواق صدقة۔
یہ حدیث اس باب میں آتی ہے۔
امام بخاری نے اس حدیث سے دلیل لی کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے وہ کنزنہیں ہے۔
اس کا دبانا اور رکھ چھوڑنا درست ہے، کیونکہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں بموجب نص حدیث زکوٰۃ نہیں ہے۔
پس اتنی چاندی کا رکھ چھوڑنا اور دبانا کنزنہ ہوگا اور آیت میں سے اس کو خاص کرنا ہوگا اور خاص کرنے کی وجہ یہی ہوئی کہ زکوٰۃ اس پر نہیں ہے تو جس مال کی زکوٰۃ ادا کردی گئی وہ بھی کنزنہ ہوگا، کیونکہ اس پر بھی زکوٰۃ نہیں رہی۔
ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہوئے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی۔
یہی چاندی کا نصاب ہے، اس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
کنز کے متعلق بیہقی میں عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت میں ہے، کل ما أدیت زکوته وإن کان تحت سبع أرضین فلیس بکنز وکل مالا تؤدی زکوته فهو کنز وإن کان ظاهرا علی وجه الأرض۔
(فتح الباري)
یعنی ہر وہ مال جس کی تونے زکوٰۃ ادا کردی ہے وہ کنز نہیں ہے اگرچہ وہ ساتویں زمین کے نیچے دفن ہو اور ہر وہ مال جس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی وہ کنز ہے اگر چہ وہ زمین کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہو۔
آپ کا یہ قول بھی مروی ہےـ ما أبالي لو کان لی مثل أحد ذهبا أعلم عددہ أزکیه وأعمل فیه بطاعة اللہ تعالیٰ۔
(فتح)
یعنی مجھ کو کچھ پروا نہیں جب کہ میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکوٰۃ ادا کرکے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں یعنی اس حالت میں اتنا خزانہ بھی میرے لیے مضر نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1404   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1404  
1404. حضرت خالد بن اسلم سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ نکلے تو ان سے ایک اعرابی نے دریافت کیا کہ ارشاد باری تعالیٰ:جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا:جس نے مال جمع کیا اور اس کی زکاۃ نہ ادا کی، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ اور آیت میں مذکورہ وعید زکاۃ کے نازل ہونے سے پہلے تھی، جب زکاۃ کا حکم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اموال کی پاکیزگی کا ذریعہ بنادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1404]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابوذر ؓ کا آیت کنز کے پیش نظر یہ موقف تھا کہ ضروریات سے زیادہ سرمایہ رکھنا شرعا درست نہیں، بلکہ ایسا کنز ہے جس پر قرآن میں وعید آئی ہے، نیز اپنے موقف کی تائید میں اس آیت کو بھی پیش کرتے تھے:
﴿وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ (البقرة: 219: 2)
اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دیں کہ جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔
حضرت ابن عمر ؓ نے آیت کنز کے متعلق فرمایا کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا۔
جب زکاۃ فرض ہوئی تو اسے منسوخ کر دیا گیا، یعنی جب فتوحات ہوئیں اور نصاب زکاۃ مقرر ہوا، پھر اس کے مصارف بیان ہوئے تو آیت میں مذکور حکم بھی ختم ہو گیا۔
دراصل حضرت ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سننے جس میں سخت حکم ہوتا تھا اور اسے اپنی قوم کو پہنچا دیتے، اس کے بعد اس کے متعلق نرمی آ جاتی، لیکن حضرت ابوذر ؓ پہلے حکم ہی پر عمل پیرا رہتے، جیسا کہ مال جمع کرنے کے متعلق ان کا موقف ہے۔
جمہور صحابہ نے ان سے اختلاف کیا ہے۔
(فتح الباري: 345/3) (2)
جن آیات کریمہ میں ضرورت سے زیادہ سارا مال خرچ کر دینے کا حکم ہے وہ نفلی صدقات کی آخری حد ہے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انسان سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دے اور بعد میں خود محتاج ہو جائے۔
صدقے کی کم از کم حد فرض زکاۃ ہے جو کفر اور اسلام کی سرحد پر واقع ہے۔
بالفاظ دیگر زکاۃ ادا نہ کرنے والا کافر ہے مسلمان نہیں، جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔
اور ان دونوں حدوں کے درمیان وسیع میدان ہے اور اہل خیر جتنی چاہیں نیکیاں کما سکتے ہیں۔
لیکن افسوس کہ ہمارے اشتراکی ذہن رکھنے والے حضرات نے قرآنی آیت میں العفو کے مفہوم کو بہت غلط معنی پہنائے ہیں۔
اشتراکی نظریے کے مطابق ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے اور اشتراکی حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہ ہو تو وہ پس انداز کیا کرے گا اور خرچ کیا کرے گا اور انفاق کے متعلق کیا پوچھے گا؟ گویا جس آیت سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہی آیت اس نظریے کی تردید پر بڑی واضح دلیل ہے، کیونکہ آیت سے واضح ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے خود اپنے مالوں کے مالک تھے اور اپنی مرضی ہی سے ان میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔
انہوں نے اس وقت سوال کیا تھا جب جہاد کے لیے مصارف کی شدید ضرورت تھی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ دوران سفر میں فرمایا:
جس کے پاس زائد سواری ہو وہ دوسرے کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد زادراہ ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے۔
الغرض آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا اس انداز سے ذکر فرمایا کہ ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمیں تو اپنے زائد مال میں کوئی حق نہیں ہے۔
(صحیح مسلم، اللقطة، حدیث: 4517(1728)
ایسے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں سے ان کے سب زائد مال چھین لیے جائیں، بلکہ مسلمانوں کی تربیت اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اختیار و ارادے سے اپنا سارا مال دے دیں تو یہ سب سے بہتر ہے، لیکن جو مسلمان ایسے حالات میں اپنا سارا زائد مال نہیں دے سکتے یا نہیں دینا چاہتے ان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، جبکہ اشتراکی نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے جو حالات جنگ تو درکنار عام حالات میں بھی لوگوں کو حق ملکیت سے محروم کر دیتا ہے، لہذا اس آیت کریمہ سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1404