صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
4. بَابُ مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ:
باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 1408
قَالَ لِي خَلِيلِي: قَالَ: قُلْتُ: مَنْ خَلِيلُكَ؟ , قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، أَتُبْصِرُ أُحُدًا؟ , قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَى الشَّمْسِ مَا بَقِيَ مِنَ النَّهَارِ وَأَنَا أُرَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرْسِلُنِي فِي حَاجَةٍ لَهُ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا أُنْفِقُهُ كُلَّهُ إِلَّا ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ، وَإِنَّ هَؤُلَاءِ لَا يَعْقِلُونَ إِنَّمَا يَجْمَعُونَ الدُّنْيَا، لَا وَاللَّهِ لَا أَسْأَلُهُمْ دُنْيَا وَلَا أَسْتَفْتِيهِمْ عَنْ دِينٍ حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ".
مجھ سے میرے خلیل نے کہا تھا میں نے پوچھا کہ آپ کے خلیل کون ہیں؟ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اے ابوذر! کیا احد پہاڑ تو دیکھتا ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اس وقت میں نے سورج کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ کتنا دن ابھی باقی ہے۔ کیونکہ مجھے (آپ کی بات سے) یہ خیال گزرا کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے مجھے بھیجیں گے۔ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں (احد پہاڑ میں نے دیکھا ہے) آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو میں اس کے سوا دوست نہیں رکھتا کہ صرف تین دینار بچا کر باقی تمام کا تمام (اللہ کے راستے میں) دے ڈالوں (ابوذر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا کہ) ان لوگوں کو کچھ معلوم نہیں یہ دنیا جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں اللہ کی قسم نہ میں ان کی دنیا ان سے مانگتا ہوں اور نہ دین کا کوئی مسئلہ ان سے پوچھتا ہوں تاآنکہ میں اللہ تعالیٰ سے جا ملوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1408  
1408. انھوں نے (ابو ذر ؓ) نے کہا:میرے خلیل ﷺ نے فرمایا ہے۔۔ میں نے عرض کیا:آپ کے خلیل کون ہیں؟ انھوں نے کہا: نبی ﷺ۔۔۔:اے ابو ذرؓ ! اُحدپہاڑ کو دیکھتے ہو؟ ابو ذر ؓ نے کہا:میں نے سورج کی طرف نظر کی کہ کتنا دن باقی رہ گیا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ رسول اللہ ﷺ مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا:جی ہاں (میں اُحد پہاڑ کو دیکھ رہا ہوں۔) آپ نے فرمایا:اگر میرے پاس اُحد کے برابر سونا ہو تو میں پسند کروں گا کہ تین دینار کے علاوہ سب کا سب خرچ کردوں۔ لوگ سمجھتے نہیں ہیں بلکہ دھڑا دھڑ دنیا جمع کررہے ہیں۔ اللہ کی قسم!نہ تو میں ان سے دنیا مانگتا ہوں اور نہ ان سے دین کے متعلق سوال ہی کروں گا تاآنکہ میں اللہ تعالیٰ سے جاملوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1408]
حدیث حاشیہ:
شاید تین اشرفیاں اس وقت آپ پر قرض ہوں گی یا یہ آپ کا روزانہ کا خرچ ہوگا۔
حافظ نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ مال جمع نہ کرے۔
مگر یہ اولویت پر محمول ہے، کیونکہ جمع کرنے والا گو زکوٰۃ دے تب بھی اس کو قیامت کے دن حساب دینا ہوگا۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ جو آئے خرچ کر ڈالے مگر اتنا بھی نہیں کہ قرآن پاک کی آیات کے خلاف ہو جس میں فرمایا ﴿وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿٢٩﴾ (بن إسرائیل29: 17)
یعنی اتنے بھی ہاتھ کشادرہ نہ کرو کہ تم خالی ہوکر شرمندہ اور عاجز بن کر بیٹھ جاؤ۔
خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ ایک مسلمان کے لیے اس کے ایمان کو بچانے کے لیے اس کے ہاتھ میں مال کا ہونا مفید ہوگا۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ بعض دفعہ محتاجگی کافر بنادیتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ درمیانی راستہ بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1408   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1408  
1408. انھوں نے (ابو ذر ؓ) نے کہا:میرے خلیل ﷺ نے فرمایا ہے۔۔ میں نے عرض کیا:آپ کے خلیل کون ہیں؟ انھوں نے کہا: نبی ﷺ۔۔۔:اے ابو ذرؓ ! اُحدپہاڑ کو دیکھتے ہو؟ ابو ذر ؓ نے کہا:میں نے سورج کی طرف نظر کی کہ کتنا دن باقی رہ گیا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ رسول اللہ ﷺ مجھے اپنی کسی ضرورت کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا:جی ہاں (میں اُحد پہاڑ کو دیکھ رہا ہوں۔) آپ نے فرمایا:اگر میرے پاس اُحد کے برابر سونا ہو تو میں پسند کروں گا کہ تین دینار کے علاوہ سب کا سب خرچ کردوں۔ لوگ سمجھتے نہیں ہیں بلکہ دھڑا دھڑ دنیا جمع کررہے ہیں۔ اللہ کی قسم!نہ تو میں ان سے دنیا مانگتا ہوں اور نہ ان سے دین کے متعلق سوال ہی کروں گا تاآنکہ میں اللہ تعالیٰ سے جاملوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1408]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ احنف بن قیس نے کہا:
میں نے ایک صاحب دیکھے جنہیں لوگ پسند نہیں کرتے، بلکہ انہیں دیکھ کر ہی وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔
میں نے ان سے پوچھا:
آپ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
میں ابوذر ہوں۔
میں نے عرض کیا کہ لوگ آپ سے کیوں دور بھاگتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
میں انہیں اس خزانے سے منع کرتا ہوں جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا تھا۔
(مسندأحمد: 164/5) (2)
حضرت ابوذر ؓ کے نزدیک حاجت اصلیہ کے علاوہ کسی بھی چیز کا ذخیرہ کرنا حرام ہے۔
آپ کا یہ وصف وجوب پر نہیں بلکہ اولویت پر محمول ہو گا، کیونکہ مال جمع کرنے والا اگرچہ اس کی زکاۃ بھی دے، تاہم قیامت کے دن اس کے متعلق حساب تو دینا ہی پڑے گا، اس لیے بہتر ہے کہ جو آئے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالے، مگر اس قدر بھی افراط سے کام نہ لے جو قرآنی آیت کی خلاف ورزی ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿٢٩﴾ ) (بن إسرائیل29: 17)
اتنے بھی ہاتھ کشادہ نہ کرو کہ تمہیں شرمندہ اور عاجز ہو کر بیٹھنا پڑے۔
اس حدیث کے متعلق دیگر فوائد کتاب الرقاق، حدیث: 6445 میں ذکر ہوں گے۔
إن شاءاللہ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1408