سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
97. باب فِي الْمَرْأَةِ تَرَى مَا يَرَى الرَّجُلُ
باب: عورت کو مرد ہی کی طرح (خواب میں) احتلام ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 237
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ الْأَنْصَارِيَّةَ هِيَ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، أَرَأَيْتَ الْمَرْأَةَ إِذَا رَأَتْ فِي النَّوْمِ مَا يَرَى الرَّجُلُ، أَتَغْتَسِلُ أَمْ لَا؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، فَلْتَغْتَسِلْ إِذَا وَجَدَتِ الْمَاءَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا، فَقُلْتُ: أُفٍّ لَكِ، وَهَلْ تَرَى ذَلِكَ الْمَرْأَةُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَرِبَتْ يَمِينُكِ يَا عَائِشَةُ، وَمِنْ أَيْنَ يَكُونُ الشَّبَهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَى عُقيْلٌ، وَالزُّبَيْدِيُّ،وَيُونُسُ، وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَوَافَقَ الزُّهْرِيُّ مُسَافِعًا الْحَجَبِيَّ، قَالَ: عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَائِشَةَ، وَأَمَّا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، فَقَالَ: عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم انصاریہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ عزوجل حق سے نہیں شرماتا، آپ ہمیں بتائیے اگر عورت سوتے میں وہ چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو کیا وہ غسل کرے یا نہیں؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جب وہ تری دیکھے تو ضرور غسل کرے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں ام سلیم کی طرف متوجہ ہوئی اور میں نے ان سے کہا: تجھ پر افسوس! کیا عورت بھی ایسا دیکھتی ہے؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: عائشہ! تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو ۱؎ (والدین اور ان کی اولاد میں) مشابہت کہاں سے ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16607(الف)، 16739)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحیض 7 (311،313، 314)، سنن الترمذی/الطہارة 90 (122)، سنن النسائی/الطہارة 131 (196)، سنن ابن ماجہ/الطہارة (601)، موطا امام مالک/الطھارة 21 (85)، مسند احمد (6/92)، سنن الدارمی/الطھارة 75 (790) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: حیرت و استعجاب کے موقع پر اس طرح کا جملہ بولا جاتا ہے جس کا مقصد بددعا نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 237  
´عورت کو مرد ہی کی طرح (خواب میں) احتلام ہوتا ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ الْأَنْصَارِيَّةَ هِيَ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، أَرَأَيْتَ الْمَرْأَةَ إِذَا رَأَتْ فِي النَّوْمِ مَا يَرَى الرَّجُلُ، أَتَغْتَسِلُ أَمْ لَا؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، فَلْتَغْتَسِلْ إِذَا وَجَدَتِ الْمَاءَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا، فَقُلْتُ: أُفٍّ لَكِ، وَهَلْ تَرَى ذَلِكَ الْمَرْأَةُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَرِبَتْ يَمِينُكِ يَا عَائِشَةُ، وَمِنْ أَيْنَ يَكُونُ الشَّبَهُ . . .»
. . . ´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ` ام سلیم انصاریہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ عزوجل حق سے نہیں شرماتا، آپ ہمیں بتائیے اگر عورت سوتے میں وہ چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو کیا وہ غسل کرے یا نہیں؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جب وہ تری دیکھے تو ضرور غسل کرے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں ام سلیم کی طرف متوجہ ہوئی اور میں نے ان سے کہا: تجھ پر افسوس! کیا عورت بھی ایسا دیکھتی ہے؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: عائشہ! تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو (والدین اور ان کی اولاد میں) مشابہت کہاں سے ہوتی ہے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي الْمَرْأَةِ تَرَى مَا يَرَى الرَّجُلُ: 237]
فوائد و مسائل:
➊ امام ابوداود رحمہ اللہ اپنی بحث میں زہری اور ہشام بن عروہ کے مابین اختلاف کا ذکر کر رہے ہیں کہ یہ مکالمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہے یا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا، تو امام صاحب کے نزدیک ترجیح زہری کی روایت کو ہے یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکالمے کو۔ انہوں نے اسی کے شواہد ذکر کیے ہیں، مگر قاضی عیاض کی تحقیق میں یہ مکالمہ سیدہ ام سلمہ اور ام سلیم کے مابین ہوا ہے۔ اس طرح ترجیح ہشام بن عروہ کی روایت کو ہو گی اور امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ [صحيح بخاري حديث: 130]
تاہم علامہ نووی نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ دونوں ہی اس موقع پر موجود ہوں اور دونوں نے تعجب کا اظہار کیا ہو۔ «والله اعلم» [عون المعبود]
➋ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا یہ جملہ جو انہوں نے اپنے سوال سے پہلے کہا کہ اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شر ماتا ان کے کمال حسن ادب پر دلیل ہے، یعنی جو بات عرفاً زبان پر نہیں لائی جاتی اور مجھے اس کی شرعاًً ضرورت ہے، بتائی جائے۔
➌ امہات المؤمنین کا اس سوال پر اظہار تعجب دلیل ہے کہ یہ کمال درجے کی طیبات و طاہرات تھیں، اس حد تک کہ انہیں خواب میں بھی کبھی برائی کا خیال نہ آیاتھا۔ [من افادات الشيخ سلطان محمود رحمه الله]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 237