سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
119. باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الْوُضُوءَ إِلاَّ عِنْدَ الْحَدَثِ
باب: مستحاضہ صرف حدث ہونے پر وضو کرے۔
حدیث نمبر: 305
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ عِكْرِمَةِ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ جَحْشٍ اسْتُحِيضَتْ،" فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَنْتَظِرَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي، فَإِنْ رَأَتْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ تَوَضَّأَتْ وَصَلَّتْ".
عکرمہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے ایام حیض (کے ختم ہونے) کا انتظار کریں پھر غسل کریں اور نماز پڑھیں، پھر اگر اس میں سے کچھ ۱؎ انہیں محسوس ہو تو وضو کر لیں اور نماز پڑھیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: 287، (تحفة الأشراف: 15821) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سے مراد حدث ہے نہ کہ مستحاضہ سے خارج ہونے والا خون، اس لئے کہ استحاضہ کے خون سے وضو واجب نہیں ہوتا کیونکہ یہ خون بند ہی نہیں ہوتا ہے برابر جاری رہتا ہے اور اگر اس سے خون مراد لیا جائے تو جملہ شرطیہ کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہ جاتا ہے کیونکہ مستحاضہ تو برابر خون دیکھتی ہے یہ اس سے بند ہی نہیں ہوتا ہے اسی وضاحت سے یہ حدیث باب کے مطابق ہو سکتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 305  
´مستحاضہ صرف حدث ہونے پر وضو کرے۔`
عکرمہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے ایام حیض (کے ختم ہونے) کا انتظار کریں پھر غسل کریں اور نماز پڑھیں، پھر اگر اس میں سے کچھ ۱؎ انہیں محسوس ہو تو وضو کر لیں اور نماز پڑھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 305]
305. اردو حاشیہ:
 یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ اس لیے راجح بات یہی ہے کہ مستحاضہ ہر نماز کے لیے وضو کرے، چاہے اس کا سابقہ وضو برقرار بھی ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 305