سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
122. باب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ النُّفَسَاءِ
باب: نفاس کی مدت کا بیان۔
حدیث نمبر: 311
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِي سَهْلٍ، عَنْ مُسَّةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:" كَانَتْ النُّفَسَاءُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقْعُدُ بَعْدَ نِفَاسِهَا أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، وَكُنَّا نَطْلِي عَلَى وُجُوهِنَا الْوَرْسَ تَعْنِي مِنَ الْكَلَفِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نفاس والی عورتیں زچگی کے بعد چالیس دن یا چالیس رات تک بیٹھی رہتی تھیں ۱؎، ہم اپنے چہروں پر ورس ۲؎ ملا کرتے تھے یعنی جھائیوں کی وجہ سے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطھارة 105 (139)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 128 (648) (تحفة الأشراف: 18287)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/300، 303، 304، 310) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی نماز اور روزے سے رکی رہتی تھیں۔
۲؎: ایک خوشبودار گھاس ہے جسے رنگنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 128  
´نفاس والی خواتین کی اکثر مدت`
«. . . وعن ام سلمة رضي الله عنها قالت: كانت النفساء تقعد على عهد النبي صلى الله عليه وآله وسلم بعد نفاسها اربعين يوما . . .»
. . . سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عہدرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عورتیں بچے کی ولادت کے چالیس روز تک ناپاک بیٹھی رہتی تھیں . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 128]

لغوی تشریح:
«نُفَسَاء» نون پر ضمہ اور فا پر فتحہ ہے، یا نون اور فا دونوں پر فتحہ ہے، یا نون پر فتحہ اور فا ساکن ہے۔ ان عورتوں کو کہتے ہیں جنہوں نے بچے کو جنم دیا ہو۔ نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو ولادت کے بعد عورت کے رحم سے عموماً چالیس روز تک خارج ہوتا رہتا ہے۔
«أَرْبَعِينَ يَوْمًا» چالیس روز نفاس کی کثیر مدت ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفاس والی خواتین کی اکثر مدت چالیس روز ہے۔ اس کی کم از کم مدت کوئی نہیں۔ ہاں، اگر چالیس روز سے تجاوز کر جائے تو پھر وہ حالت استحاضہ شمار ہو گی اور اس حالت میں نماز روزہ ترک نہ کیے جائیں گے۔ تعلق زن و شو بھی قائم ہو سکتے ہیں، البتہ نفاس کا حکم حیض کی طرح ہے۔ نفاس والی عورت کو نماز روزہ کی رخصت ہے، مسجد میں نہیں ٹھہر سکتی۔ طواف کعبہ بھی نہیں کر سکتی۔ اور علماء کے ایک گروہ کی رائے کے مطابق وہ تلاوت قرآن اور قرآن کو چھونے سے بھی اجتناب کرے گی۔ اس دوران میں جتنے روزے چھوٹ گئے تھے ان کی دوسرے ایام میں قضا ضرور دے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں دے گی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 128   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث648  
´نفاس والی عورت زچگی کے بعد کتنے دن بیٹھے؟`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس دن نماز اور روزے سے رکی رہتی تھیں، اور ہم اپنے چہرے پہ جھائیں کی وجہ سے «ورس» ملا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 648]
اردو حاشہ:
(1)
نفاس سے مراد وہ خون ہے جو عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد آتا ہے۔
اس کی زیادہ سے زیادہ مدت کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔
اکثر علماء کا رجحان چالیس دن کی طرف ہی ہے اس کے بعد بھی اگر خون جاری رہے تو اسے استحاضہ سمجھا جائےاور عورت غسل کرکے نماز روزہ ادا کرنا شروع کردے۔
اگر اس سے کم مدت میں خون بند ہوجائے تو چالیس دن تک پرہیز کرنا ضروری نہیں پاک ہونے کے بعد غسل کرکے نماز روزہ شروع کردینا چاہیے۔

(2)
ورس ایک بوٹی ہے عورتیں اس سے چھائیوں کا علاج کرتی تھیں۔
یہ بوٹی اور بھی متعدد امراض میں مفید ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 648   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 139  
´نفاس والی عورتیں (صوم و صلاۃ سے) کب تک رکی رہیں؟`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک بیٹھی رہتی تھیں، اور جھائیوں کے سبب ہم اپنے چہروں پر ورس (نامی گھاس ہے) ملتی تھیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 139]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں مُسّہ ازدیہ لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں،
لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 139