صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
52. بَابُ ذِكْرِ الْعِلْمِ وَالْفُتْيَا فِي الْمَسْجِدِ:
باب: مسجد میں علمی مذاکرہ کرنا اور فتوی دینا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 133
حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنْ الْجُحْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ"، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَقُولُ: لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، ان سے نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر بن الخطاب نے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ (ایک مرتبہ) ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مدینہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ (آخری جملہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد نہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 133  
´مسجد میں علمی مذاکرہ کرنا اور فتوی دینا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنْ الْجُحْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ "، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَقُولُ: لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ (ایک مرتبہ) ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مدینہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ (آخری جملہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد نہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ ذِكْرِ الْعِلْمِ وَالْفُتْيَا فِي الْمَسْجِدِ:: 133]

تشریح:
مسجد میں سوال کیا گیا اور مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مساجد کو دارلحدیث کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 133   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 317  
´تلبیہ کہنے کا مقام`
«. . . 220- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يهل أهل المدينة من ذي الحليفة، وأهل الشام من الجحفة، وأهل نجد من قرن. قال عبد الله: وبلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويهل أهل اليمن من يلملم. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں (لبیک کہیں) اور اہل شام حجفہ سے اور اہل نجد قرن سے احرام باندھیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل یمن ے یلَملَم سے احرام باندھیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 317]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1525، ومسلم 1182، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت حدیث میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے۔
➋ صحابۂ کرام کی مراسیل (مرسل روایات) حجت ہیں جیسا کہ اصولِ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ [1530] اور امام مسلم [1181] نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ولأھل الیمن یلملم» اور یمن والوں کا میقات یلملم ہے۔ والحمدللہ
➌ ذوالحلیفہ کو آج کل ابیار علی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ مدینہ طیبہ کے قریب ہے۔
➍ حج اور عمرے کی نیت کرنے والا میقات سے احرام باندھے بغیر نہیں گزر سکتا۔ اگر گزر جائے تو پھر اس پر دم واجب ہو جاتا ہے یعنی وہ ایک بکری ذبح کرکے اہلِ مکہ کے غریبوں، مسکینوں کو کھلائے گا۔
➎ یہ ضروری نہیں کہ سب سے بڑے عالم اور مجتہد کو ہر حدیث اور ہر مسئلہ معلوم ہو بلکہ بہت سے جلیل القدر صحابہ سے بعض احادیث کا مخفی رہ جانا اس کی دلیل ہے کہ باتیں مخفی رہ سکتی ہیں۔
➏ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایلیاء (بیت المقدس) سے احرام باندھا تھا۔ [الام للشافعي 7/253 وسنده صحيح] آپ نے بیت المقدس سے احرام باندھا تھا۔ [مسند الشافعي ص364 ح1652، وسنده صحيح]
اسود بن یزید تابعی نے کوفے سے احرام باندھا تھا۔ [ابن ابي شيبه 3/122 ح12682، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ جو شخص بذریعہ ہوائی جہاز حج یا عمرے کے لئے روانہ ہوتا ہے تو وہ ائیرپورٹ سے احرام باندھ سکتا ہے، بشرطیکہ دورانِ پرواز جہاز میں ہی میقات آجائے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 220   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2914  
´مکہ سے باہر رہنے والوں کی میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ ذو الحلیفہ سے تلبیہ پکاریں اور احرام باندھیں، اہل شام جحفہ سے، اور اہل نجد قرن سے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رہیں یہ تینوں (میقاتیں) تو انہیں میں نے (براہ راست) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، اور مجھے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل یمن یلملم سے تلبیہ پکاریں، (اور احرام باندھیں) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2914]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
میقات سے مراد وہ حد ہے جہاں سے حج وعمرے کی نیت سے آنے والا شخص احرام باندھے بغیر آگے نہیں جاسکتا۔
مکہ آنے والے مختلف راستوں پران مقامات کا تعین کردیا گیا ہے۔

(2)
آفاقی سے مراد وہ لوگ ہیں جو میقات کی حدود سے باہر دنیا میں کسی بھی مقام پر رہتے ہیں۔
وہ میقات پر پہنچتے ہیں تو احرام باندھتے ہیں۔
ان حدود کے اندر رہنے والے اپنے اپنے گھر سے احرام باندھ کر روانہ ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2914   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 831  
´آفاقی لوگوں کے لیے احرام باندھنے کی میقاتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم احرام کہاں سے باندھیں؟ آپ نے فرمایا: اہل مدینہ ذی الحلیفہ ۲؎ سے احرام باندھیں، اہل شام جحفہ ۳؎ سے اور اہل نجد قرن سے ۴؎۔ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل یمن یلملم سے ۵؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 831]
اردو حاشہ:
1؎:
مواقیت میقات کی جمع ہے،
میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر احرام باندھ کر حج کی نیت کرتا ہے۔

2؎:
مدینہ کے قریب ایک مقام ہے۔
جس کی دوری مدینہ سے مکہ کی طرف دس کیلو میٹر ہے اور یہ مکہ سے سب سے دوری پر واقع میقات ہے۔

3؎:
مکہ کے قریب ایک بستی ہے جسے اب رابغ کہتے ہیں۔

4؎:
اسے قرن المنازل بھی کہتے ہیں،
یہ مکہ سے سب سے قریب ترین میقات ہے۔
مکہ سے اس کی دوری 95 کیلو میٹر ہے۔

5؎:
ایک معروف مقام کا نام ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 831   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:133  
133. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس مقام سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے، شام کے لوگ جحفه سے اور نجد کے باشندے قرن سے احرام باندھیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: لوگ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ حضرت ابن عمر ؓ کہا کرتے تھے: میں رسول اللہ ﷺ سے یہ (آخری) بات اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:133]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی اہمیت و مقصدیت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:
مساجد بول و براز یا گندگی پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی تعمیر کا ایک خاص مقصد ہے۔
بےشک وہ مقصد اللہ کا ذکر، نماز اور تلاوت قرآن ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 505(661)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے اغراض و مقاصد کو کلمہ حصر(إِنَّمَا)
سے بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں یہی کام ہو سکتے ہیں ان کے علاوہ دوسرے کسی شغل کی حیثیت مشتبہ ہو جاتی ہے خواہ وہ تعلیم وافتا ہی سے متعلق ہو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حصر حقیقی نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں علمی باتیں اور فتاوی وغیرہ کا شغل بھی درست ہے، بلکہ مقدمات کا فیصلہ کرنا اور دینی مباحثہ کرنا بھی جائز ہے ہاں مساجد میں دنیوی باتیں کرنا اور انھیں بازار کی حیثیت دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔
یہ تھا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد! ابامام تدبرکی بھی سنیے۔
جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
امام صاحب ہر چیز کو نکتہ بنانے کے عادی ہیں ورنہ کس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم دین اور فتوی کے لیے مسجد موزوں مقام ہے یا نہیں؟ مسجد ہی تو مسلمانوں کے دین کا مرکز ہے۔
مناسک حج کے سلسلہ کی یہ ایک اہم روایت ہے لیکن امام صاحب نے اس سے بس یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علمی سوال مسجد میں بھی ہو سکتا ہے۔
(تدبر حدیث:
232/1-
234)

امام تدبر تو اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں ہم ان کے تیار کردہ تلامذہ سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مسجد میں علمی سوال کا جواز ہی ثابت نہیں کیا بلکہ کتاب الحج میں اس پر مزید تین عنوان قائم کیے ہیں۔
(1)
۔
حج اور عمرہ کے لیے میقات کا تعین (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1522) (2)
۔
اہل مدینہ کا میقات (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1525)
(3)
۔
اہل نجد کے لیے جائے احرام۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1528)
اس حدیث پر تفصیلی بحث کتاب الحج میں آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 133