سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
142. باب فِي الأَذَى يُصِيبُ النَّعْلَ
باب: جوتے میں نجاست لگ جائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 385
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ. ح وحَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي. ح وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ الْمَعْنَى، قَالَ: أُنْبِئْتُ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ حَدَّثَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذَى، فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُورٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے جوتے سے نجاست روندے تو (اس کے بعد کی) مٹی اس کو پاک کر دے گی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 14329) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جوتوں میں گندگی لگ جانے کی صورت میں اس کو زمین پر رگڑ دینے سے وہ پاک ہو جاتے ہیں، ان کو پہن کر نماز ادا کرنا صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود385  
«والنجاسات هي غائط الإنسان وبوله»
اور نجاستیں یہ ہیں: مطلق طور پر انسان کا پیشاب اور پاخانہ۔
➊ اس پر امت کا اجماع ہے۔ [بداية المجتهد 73/1] ۳؎
➋ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذَى، فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُورٌ»
جب تم میں سے کوئی (چلتے ہوئے) اپنی جوتی کو گندگی لگا دے تو مٹی سے پاک کر دیتی ہے۔ [أبو داود 385]
ایک روایت میں یہ الفاظ مرفوعا مروی ہیں:
«إِذَا وَطِئَ الْأَذَى بِخُفَّيْهِ، فَطَهُورُهُمَا التُّرَابُ»
جب کوئی اپنے موزوں کو گندگی لگا دے تو انہیں پاک کرنے والی مٹی ہے۔ [أبو داود 386] ۴؎
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پیشاب کرنے والے دیہاتی کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دینے کا حکم دیا۔ [بخاري 221] ۵؎
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کا پیشاب نجس ہے اور یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ [نيل الأوطار 88/1]
------------------
۳؎ [بداية المجتهد 73/1، المغني 52/1، فتح القدير 135/1، كشاف القناع 213/1، مغني المحتاج 77/1، اللباب 55/1، الشرح الصغير 49/1]
۴؎ [صحيح: صحيح أبو داود 372، 371 كتاب الطهارة: باب فى الأذي يصيب النعل، بيهقي 430/2، ابن حبان ص85ء الموارد، حاكم 166/1، ابن خزيمة 148/1، شرح معاني الآثار 511/1، أبو داود 385، 382]
۵؎ [بخاري 221، كتاب الوضوء: باب صب الماء على البول فى المسجد، مسلم 284، ترمذي 148، نسائي 175/1، ابن ماجة 528، شرح معاني الآثار13/1، ابوعوانة 213/1، عبدالرزاق 1660، بيهقي 327/2، أحمد 110/3، دارمي 189/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 142   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 171  
´شرائط نماز کا بیان`
«. . . وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا وطىء أحدكم الأذى بخفيه فطهورهما التراب . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایک جب اپنے موزوں سے گندگی پر چلے تو بیشک مٹی اسے پاک و صاف کرنے والی ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب شــروط الصلاة: 171]

لغوی تشریح:
«وَطِيءَ أَحَدُكُمُ الْأَذٰي» نجاست کو اپنے پاؤں سے روندے اور اس پر سے گزرے اور چلے۔ «وَطِيءَ» باب «سَمِعَ يَسْمَعُ» سے ہے۔
«بِخُفَيْهِ» خف کا تثنیہ ہے جو ضمیر کی طرف مضاف ہے۔ اس میں با حرف جر ہے۔ یہ اور پہلے گزری ہوئی حدیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جوتے، موزے اور ایسی دوسری چیزیں مٹی پر رگڑنے سے پاک ہو جاتی ہیں، خواہ نجاست خشک ہو یا تر۔

فوائد و مسائل:
➊ مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے سنداً ضعیف کہا ہے، تاہم معناً صحیح ہے۔ غالباً اسی بنا پر امام ابن حبان رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہما اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ بنابریں جوتوں اور موزوں پر اگر کسی قسم کی نجاست لگ جائے، خواہ وہ خشک ہو یا تر، مرئی (نظر آنے والی) ہو یا غیر مرئی، خفیف ہو یا غلیظ تو وہ پاک مٹی پر اچھی طرح رگڑنے سے پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ دھونے کی چنداں ضرورت نہیں، بشرطیکہ جوتے نیچے سے برابر ہوں اور گندگی ان میں پھنس نہ جاتی ہو۔
➋ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک اس کے برعکس ہے، البتہ احناف نے امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک کو صحیح مانا ہے۔
➌ امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک روایت کی رو سے امام أحمد رحمہ اللہ نے بھی یہی رائے دی ہے کہ نجاست خشک ہو یا تر صرف زمین پر جوتا یا موزہ اچھی طرح رگڑنے سے پاک صاف ہو جاتا ہے، پانی سے دھو کر پاک صاف کرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 171