سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
143. باب الإِعَادَةِ مِنَ النَّجَاسَةِ تَكُونُ فِي الثَّوْبِ
باب: نجس کپڑے میں ادا کی جانے والی نماز کے دہرانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 388
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَتْنَا أُمُّ يُونُسَ بِنْتُ شَدَّادٍ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي حَمَاتِي أُمُّ جَحْدَرٍ الْعَامِرِيَّةُ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ عَنْ دَمِ الْحَيْضِ يُصِيبُ الثَّوْبَ، فَقَالَتْ:" كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْنَا شِعَارُنَا وَقَدْ أَلْقَيْنَا فَوْقَهُ كِسَاءً، فَلَمَّا أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْكِسَاءَ فَلَبِسَهُ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْغَدَاةَ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ لُمْعَةٌ مِنْ دَمٍ، فَقَبَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا يَلِيهَا فَبَعَثَ بِهَا إِلَيَّ مَصْرُورَةً فِي يَدِ الْغُلَامِ، فَقَالَ: اغْسِلِي هَذِهِ وَأَجِفِّيهَا ثُمَّ أَرْسِلِي بِهَا إِلَيَّ، فَدَعَوْتُ بِقَصْعَتِي فَغَسَلْتُهَا ثُمَّ أَجْفَفْتُهَا فَأَحَرْتُهَا إِلَيْهِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ النَّهَارِ وَهِيَ عَلَيْهِ".
ام یونس بنت شداد کہتی ہیں کہ میری ساس ام جحدر عامریہ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کپڑے میں لگ جانے والے حیض کے خون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور ہم اپنا شعار (اندر کا کپڑا) پہنے ہوئے تھے، اس کے اوپر سے ہم نے ایک کمبل ڈال لیا تھا، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمبل کو اوڑھ کر (نماز کے لیے) چلے گئے اور صبح کی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! یہ خون کا نشان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آس پاس کے حصہ کو مٹھی سے پکڑ کر غلام کے ہاتھ میں دے کر اسی طرح میرے پاس بھیجا اور فرمایا: اسے دھو کر اور سکھا کر میرے پاس بھیج دو، چنانچہ میں نے پانی کا اپنا پیالہ منگا کر اس کو دھویا پھر سکھایا، اس کے بعد آپ کے پاس واپس بھجوا دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت وہی کمبل اوڑھے تشریف لائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17977)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/250) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی دو راویہ ام جحدر اور ام یونس مجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 388  
´نجس کپڑے میں ادا کی جانے والی نماز کے دہرانے کا بیان۔`
ام یونس بنت شداد کہتی ہیں کہ میری ساس ام جحدر عامریہ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کپڑے میں لگ جانے والے حیض کے خون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور ہم اپنا شعار (اندر کا کپڑا) پہنے ہوئے تھے، اس کے اوپر سے ہم نے ایک کمبل ڈال لیا تھا، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمبل کو اوڑھ کر (نماز کے لیے) چلے گئے اور صبح کی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! یہ خون کا نشان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آس پاس کے حصہ کو مٹھی سے پکڑ کر غلام کے ہاتھ میں دے کر اسی طرح میرے پاس بھیجا اور فرمایا: اسے دھو کر اور سکھا کر میرے پاس بھیج دو، چنانچہ میں نے پانی کا اپنا پیالہ منگا کر اس کو دھویا پھر سکھایا، اس کے بعد آپ کے پاس واپس بھجوا دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت وہی کمبل اوڑھے تشریف لائے۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 388]
388۔ اردو حاشیہ:
یہ روایت بھی سنداًً ضعیف ہے، لیکن معناً صحیح ہے۔ یعنی انسان نے لاعلمی میں نجس کپڑے میں نماز پڑھ لی ہو تو معاف ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے کہ دوسری حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے نماز میں اپنے جوتے اتار دیے اور اپنی بائیں جانب رکھ لیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں اسی طرح کیا۔ بعداز نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتارے دیے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا ہے تو ہم نے بھی اتار دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبرائیل امین نے بتایا کہ اس میں نجاست ہے۔ [صحيح أبوداود، حديث: 605]
معلوم ہوا کہ نجس کپڑے یا جوتے کے ساتھ نماز نہیں ہوتی، مگر لاعلمی میں جو پڑھ لی گئی ہو وہ درست ہے، اس کا اعادہ ضروری نہیں!
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 388