سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
1. باب الصَّلاَةِ مِنَ الإِسْلاَمِ
باب: نماز کی فرضیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 391
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ يُسْمَعُ دَوِيُّ صَوْتِهِ وَلَا يُفْقَهُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا، فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِيَامَ شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّدَقَةَ، قَالَ: فَهَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ".
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اہل نجد کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جس کے بال پراگندہ تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنی جاتی تھی لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، یہاں تک کہ وہ قریب آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسلام) دن رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھنی ہے، اس نے پوچھا: ان کے علاوہ اور کوئی نماز مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ۱؎ إلا یہ کہ تم نفل پڑھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ماہ رمضان کے روزے کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے سوا کوئی اور بھی روزے مجھ پر فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، إلا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکاۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے علاوہ کوئی اور بھی صدقہ مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، إلایہ کہ تم نفلی صدقہ کرو۔ پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر یہ کہتے ہوئے چلا: قسم اللہ کی! میں نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ کم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بامراد رہا اگر اس نے سچ کہا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 34 (46)، والصوم 1 (1891)، والشہادات 26 (2678)، والحیل 3 (6956)، صحیح مسلم/الإیمان 2 (11)، سنن النسائی/الصلاة 4 (459)، والصوم 1 (2092)، الإیمان 23 (5031)، (تحفة الأشراف: 5009)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ قصر الصلاة 25(94)، مسند احمد (1/162)، سنن الدارمی/الصلاة 208 (1691) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 46  
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں آیت مبارکہ نقل فرمائی « ﴿ذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴾ » [البينة: 5]
اور حدیث میں اسلام کا ذکر ہے جس میں نماز اور زکوٰۃ کا بعین حکم موجود ہے لہٰذا زکوٰۃ اور نماز کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام قرار دیا لہٰذا اسلام دین ہے اور دین اسلام ہے۔

صاحب اوجز مسالک رقمطراز ہیں:
آیت مبارکہ « ﴿ذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴾ » [البينة: 5] یعنی یہاں جو اشیاء مذکور ہیں دین ملت سے ہیں۔ اور یہ آیت ترجمتہ الباب کے ساتھ اس طرح سے دلالت کرتی ہے کہ آیت میں زکوٰۃ کو دین قرار دیا ہے اور دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی ہے اور زکوٰۃ اسلام میں داخل ہے۔ [ابواب والتراجم، ج 1، ص 400]
لہٰذا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 97   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 16  
´اسلام فرائض و اعمال کا نام ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرُ الرَّأْسِ نَسْمَعُ دَوِيَّ صَوْتِهِ وَلَا نَفَقَهُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ» . فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ فَقَالَ: " لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ ". قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ: «لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ» . قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ فَقَالَ: " لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ. قَالَ: فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفْلح الرجل إِن صدق» . . .»
. . . سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک نجدی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے (اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کہنا شروع کیا) ہم اس کی بھنبھناہٹ اور گنگناہٹ کی آواز تو سنتے تھے مگر (آواز کے صاف نہ ہونے یا دوری فاصلہ کی وجہ سے) ہم اس کی بات نہیں سمجھ رہے تھے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گیا تو وہ آپ سے اسلام کے بارے میں کچھ دریافت کر رہا تھا (یعنی اسلام کے بعض احکام اور فرائض کے بارے میں سوال کیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کے احکام میں سے دن اور رات میں پانچ وقت کی نماز ہے۔ اس نے عرض کیا کہ ان پانچوں کے علاوہ اور بھی کوئی نماز میرے اوپر فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، البتہ نفلی نمازیں ہیں جن کو تم اپنی خوشی سے پڑھ لیا کرو گے تو ثواب پاؤ گے نہ پڑھو گے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کا ایک رکن رمضان کے مہینے کا روزہ رکھنا بھی ہے۔ اس نے عرض کیا ان رمضان کے روزوں کے علاوہ اور بھی روزے میرے اوپر ضروری ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور روزے تو فرض نہیں ہیں مگر نفلی روزے تم رکھ سکتے ہو۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ بھی فرض ہے۔ اس نے کہا: زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی کچھ فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، مگر نفلی صدقہ و خیرات کر سکتے ہو۔ راوی نے کہا کہ اس کے بعد سوال کرنے والا پیٹھ موڑ کر واپس لوٹا اور وہ یہ کہتا جا رہا تھا کہ اللہ کی قسم! جتنا آپ نے فرمایا ہے نہ میں اس سے زیادہ کروں گا اور نہ اس سے کم کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 16]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 46]،
[صحيح مسلم 100]

فقہ الحدیث
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کامیابی کا دارومدار اعمال اور فرائض کی ادائیگی پر ہے۔ تاہم سنن و نوافل کو بھی نہیں چھوڑنا چاہئیے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ جب فرائض میں کمی ہو گی تو سنن و نوافل کام آئیں گے، نیز احکام اسلام کما حقہ بجا لانے کی فضیلت بھی واضح ہو رہی ہے۔
➋ اہل نجد والا آدمی کون تھا، حدیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ ابن بطال اور ابن العجمی وغیرہما کا خیال ہے کہ وہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ [شرح ابن بطال 97/1 والتوضيح لمبهمات الجامع الصحيح لابن العجمي، قلمي ص13]
➌ اسلام فرائض و اعمال کا نام ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ مرجیہ کا عقیدہ باطل ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں۔
➍ اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں ہے، جبکہ دوسری احادیث سے حج کا فرض ہونا ثابت ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر ایک دلیل میں کوئی مسئلہ مذکور نہیں اور دوسری دلیل میں وہ مسئلہ مذکور ہے تو اسی کا اعتبار ہو گا، اس حالت میں عدم ذکر کو نفی ذکر کی دلیل نہیں بنایا جائے گا۔
➎ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ اس کی تائید سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درج ذیل قول سے بھی ہوتی ہے:
«ليس الوتر بحتم كالصلٰوة ولٰكنه سنة فلا تدعوه»
وتر (فرض) نماز کی طرح (واجب) نہیں ہے، لیکن یہ سنت ہے اسے نہ چھوڑو۔ [مسند أحمد 107/1 ح 842 وسنده حسن]
ایک شخص ابومحمد نامی نے کہا: وتر واجب ہے تو سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ (بدری صحابی) نے فرمایا:
«كذب أبومحمد» ابومحمد نے جھوٹ (یعنی غلط) کہا۔ [سنن ابي داؤد: 1420 وسنده حسن، مؤطا امام مالك 123/1 وصححه ابن حبان، موارد: 252، 253]
➏ عربی زبان میں بلند و سخت جگہ کو «نجد» اور پست اور نچلی زمین کو «غور» کہتے ہیں۔ دیکھئے: [القاموس الوحيد ص 1611، 1189]
عرب کے علاقے میں بہت سے نجد ہیں۔ مثلا نجد برق، نجد خال، نجد عفر، نجد کبکب اور نجد مریع ديكهئے: [معجم البلدان 262/5]
تہامہ سے عراق کی زمین تک نجد ہے۔ [لسان العرب 413/3]
جن احادیث میں قرن الشیطان، زلزلوں اور فتنوں والے نجد کا ذکر ہے، ان سے مراد نجد العراق ہے۔ دیکھئے: اكمل البيان فى شرح حديث نجد قرن الشيطان از حكيم محمد اشرف سندهو اور فتنوں کی سرزمین نجد یا عراق از رضاءالله عبدالكريم
نیز دیکھئے: راقم الحروف کی کتاب «الاتحاف الباسم تحقيق وشرح موطأ امام مالك رواية ابن القاسم» [ص 351۔ 352]
حدیث ہذا میں جس نجدی کا ذکر ہے وہ جلیل القدر صحابی (ضمام بن ثعلبة) رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ اوپر [نمبر ➋] گزرا ہے نیز دیکھئے: [الاصابة ص 627 ت 4342]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 16   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 391  
´نماز کی فرضیت کا بیان۔`
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اہل نجد کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جس کے بال پراگندہ تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنی جاتی تھی لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، یہاں تک کہ وہ قریب آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسلام) دن رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھنی ہے، اس نے پوچھا: ان کے علاوہ اور کوئی نماز مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ۱؎ إلا یہ کہ تم نفل پڑھو۔‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ماہ رمضان کے روزے کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے سوا کوئی اور بھی روزے مجھ پر فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، إلا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکاۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے علاوہ کوئی اور بھی صدقہ مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، إلایہ کہ تم نفلی صدقہ کرو۔‏‏‏‏ پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر یہ کہتے ہوئے چلا: قسم اللہ کی! میں نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ کم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بامراد رہا اگر اس نے سچ کہا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 391]
391۔ اردو حاشیہ:
اسلام حجاز کے ماحول میں شروع ہوا تو اجنبی اور نامانوس تھا، مگر جب اس کی حقانیت کا چرچا ہو گیا تو دشت و جبل کے باسیوں کے افکار بھی تبدیل ہو گئے۔ ان پر دنیا کے مال و منال کے بجائے اللہ کے ساتھ تعلق، دین کی استواری اور آخرت کا فکر غالب آ گیا۔ اس سائل کی فطری سادگی نے اسے سمجھایا کہ حق کا راستہ صاف اور مختصر ہے۔ اس سوال و جواب سے معلوم ہوا کہ سنتیں، وتر، تحیۃ المسجد اور نماز عید وغیرہ بنیادی طور پر نوافل ہی ہیں، مگر بقول علامہ سندھی سنتوں کے ترک کو اپنی عادت بنا لینا، دین میں بہت بڑا نقص اور خسارہ ہے۔ یہ لوگ چونکہ جدید الاسلام تھے، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اسی قدر پر کفایت فرمائی تاکہ دین ان کے لیے بوجھ نہ بنے اور یہ بددل نہ ہو جائیں، مگر جب ان کے سینے کھل گئے تو ا جر و ثواب کے ازحد حریص بن گئے اور نوافل پر عمل ان کے لیے بہت ہی آسان ہو گیا۔ اس لیے ایک مسلمان کو فرائض کے ساتھ نوافل سے ہرگز دل نہیں چرانا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 391   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 459  
´دن اور رات میں کتنی نمازیں فرض کی گئیں؟`
ابو سہیل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ اہل نجد کا ایک آدمی پراگندہ سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سن رہے تھے، لیکن جو کہہ رہا تھا اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے، یہاں تک کہ وہ قریب آ گیا، تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: (اسلام) دن اور رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھنا ہے، اس نے پوچھا: کیا میرے اوپر ان کے علاوہ بھی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، الا یہ کہ تم نفل پڑھو، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کا روزہ ہے، اس نے پوچھا: اس کے علاوہ بھی کوئی روزہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، الا یہ کہ تم نفل رکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا، تو اس نے پوچھا: کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، الا یہ کہ تم نفل صدقہ دو، پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر جانے لگا، اور وہ کہہ رہا تھا: قسم اللہ کی! میں اس سے نہ زیادہ کروں گا نہ کم، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کامیاب ہو گیا اگر اس نے سچ کہا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 459]
459 ۔ اردو حاشیہ:
بھنبھناہٹ سنتے تھے۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گفتگو دھیمی آواز میں کررہا تھا۔
➋چونکہ وہ سائل پہلے سے مسلمان تھا، شہادتین کا اقرار کرچکا تھا، اس لیے آپ نے اس کو دوسرے ارکان اسلام بیان فرمائے۔ حج کا ذکر نہیں فرمایا کہ وہ ابھی تک فرض نہ ہوا تھا۔ محقق بات یہ ہے کہ حج 9ہجری میں فرض ہوا۔
مگر یہ کہ تو نفل کرے۔ گویا اصل سوال فرائض کے بارے ہی میں تھا۔ فلاح کا مدار بھی فرائض ہی پر ہے، باقی رہے سنن و نوافل، تو وہ فرائض کی تکمیل کے لیے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کمی سنن و نوافل سے پوری ہوتی ہے۔ شاید ہی کوئی شخص فرائض کی مکمل ادائیگی کا دعویٰ کر سکے، اس لیے سنن و نوافل خصوصاً رواتب کی پابندی بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے بھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پابندی فرمائی ہے اور ہمارے لیے آپ کی سنن کی اتباع لازم ہے، نیز رواتب (فرض نماز کی اگلی پچھلی سنتیں) فرض کے تابع ہیں، الگ نہیں، لہٰذا سفر، مرض اور انتہائی مصروفیت کے علاوہ ان پر دوام کیا جائے۔ باقی رہا بعض لوگوں کا یہ قول کہ نفل نماز یا روزہ شروع کرنے سے بھی واجب ہو جاتا ہے کیونکہ راستے میں چھوڑ دینے سے بطلان عمل ہو گا اور قرآن مجید میں ہے: ﴿ولاتبطلوا اعمالکم﴾ [محمد47: 33]
تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزعمل اور احادیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی روزہ مکمل کرنے سے پہلے افطار کیا۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1154]
اس لیے جمہور اہل علم کے مطابق شروع کرنے سے نفل فرض نہیں بن جاتا، البتہ تکمیل بہتر ہے۔ باقی رہی آیت مبارکہ تو اس کا سیاق و سباق بعض لوگوں (احناف) والا معنی لینے سے مانع ہے کیونکہ اس آیت میں خلاف سنت کام کرنے کو باطل کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 459