سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
2. باب فِي الْمَوَاقِيتِ
باب: اوقات نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 395
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى،" أَنَّ سَائِلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا حَتَّى أَمَرَ بِلَالًا، فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ فَصَلَّى حِينَ كَانَ الرَّجُلُ لَا يَعْرِفُ وَجْهَ صَاحِبِهِ، أَوْ أَنَّ الرَّجُلَ لَا يَعْرِفُ مَنْ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، حَتَّى قَالَ الْقَائِلُ: انْتَصَفَ النَّهَارُ وَهُوَ أَعْلَمُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ صَلَّى الْفَجْرَ وَانْصَرَفَ، فَقُلْنَا: أَطَلَعَتِ الشَّمْسُ؟ فَأَقَامَ الظُّهْرَ فِي وَقْتِ الْعَصْرِ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ، وَصَلَّى الْعَصْرَ وَقَدِ اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ، أَوْ قَالَ أَمْسَى، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟ الْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْمَغْرِبِ بِنَحْوِ هَذَا، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ، قَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى شَطْرِهِ، وَكَذَلِكَ رَوَى ابْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک سائل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اوقات نماز کے بارے میں) پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جب صبح صادق کی پو پھٹ گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر اس وقت پڑھی جب آدمی اپنے ساتھ والے کا چہرہ (اندھیرے کی وجہ سے) نہیں پہچان سکتا تھا، یا آدمی کے پہلو میں جو شخص ہوتا اسے نہیں پہچان سکتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت اس وقت کہی جب آفتاب ڈھل گیا یہاں تک کہ کہنے والے نے کہا: (ابھی تو) ٹھیک دوپہر ہوئی ہے، اور آپ کو خوب معلوم تھا (کہ زوال ہو چکا ہے)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی، اس وقت سورج بلند و سفید تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت سورج ڈوبنے پر کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت اس وقت کہی جب شفق غائب ہو گئی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھی اور نماز سے فارغ ہوئے، تو ہم لوگ کہنے لگے: کیا سورج نکل آیا؟ پھر ظہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت پڑھی جس وقت پہلے روز عصر پڑھی تھی اور عصر اس وقت پڑھی جب سورج زرد ہو گیا یا کہا: شام ہو گئی، اور مغرب شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھی، اور عشاء اس وقت پڑھی جب تہائی رات گزر گئی، پھر فرمایا: کہاں ہے وہ شخص جو نماز کے اوقات پوچھ رہا تھا؟ نماز کا وقت ان دونوں کے بیچ میں ہے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سلیمان بن موسیٰ نے عطاء سے، عطاء نے جابر رضی اللہ عنہ سے، جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے بارے میں اسی طرح روایت کی ہے، اس میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی، بعض نے کہا: تہائی رات میں پڑھی، بعض نے کہا: آدھی رات میں، اور اسی طرح یہ حدیث ابن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ) سے، بریدہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 31 (613)، سنن النسائی/المواقیت 15 (522)، (تحفة الأشراف:9137)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 1 (152)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 1 (667)، مسند احمد (5/249) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: پہلے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری نمازیں اوّل وقت میں پڑھیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں، ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتانے کے لئے کیا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی فجر اسفار میں نہیں پڑھی اور نہ ہی کبھی بلاوجہ ظہر، عصر اور مغرب میں تاخیر کی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 524  
´مغرب کے اخیر وقت کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سائل آیا وہ آپ سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جس وقت فجر کی پو پھٹ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی جب سورج ڈھل گیا، اور کہنے والے نے کہا: کیا دوپہر ہو گئی؟ حالانکہ وہ خوب جانتا ہوتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی جبکہ سورج بلند تھا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی تکبیر کہی جب سورج ڈوب گیا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت کہی جب شفق غائب ہو گئی، پھر دوسرے دن آپ نے فجر کو مؤخر کیا جس وقت پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا کہ سورج نکل آیا، پھر ظہر کو کل کے عصر کی وقت کے قریب وقت تک مؤخر کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کو دیر سے پڑھی یہاں تک کہ پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا سورج سرخ ہو گیا ہے، پھر آپ نے مغرب دیر سے پڑھی یہاں تک کہ شفق کے ڈوبنے کا وقت ہو گیا، پھر عشاء کو آپ نے تہائی رات تک مؤخر کیا، پھر فرمایا: نماز کا وقت ان دو وقتوں کے درمیان ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 524]
524 ۔ اردو حاشیہ:
سایہ تسمے کے برابر تھا۔ یعنی دیواروں کی مشرقی جانب ابھی معمولی سا سایہ آیا تھا، جیسے دیوار کے ساتھ ساتھ تسمہ بچھا دیا جائے، یعنی باریک سی لائن کی طرح، گویا سورج ڈھلتے ہی۔
➋عصر کی نماز کے وقت یہی تسمہ مثل اول سے زائد تھا، یعنی معمولی سا زائد سایہ جو تسمے کی موٹائی کے برابر تھا۔
➌مغرب کی نماز کا آخری وقت غروب شفق ہے جیسا کہ گزشتہ احادیث میں صراحت سے ذکر ہے مگر چونکہ مغرب کا وقت مختصر ہوتا ہے، اس لیے عموماً غروب شمس ہی کے ساتھ پڑھ لی جاتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں دوسرے دن بھی غروب شمس ہی کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اس لیے بعض فقہاء نے کہہ دیا کہ مغرب کی نماز کا اول وآخر وقت ایک ہی ہے لیکن صحیح بات وہ ہے جو پیچھے بیان ہوئی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 524