سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
3. باب فِي وَقْتِ صَلاَةِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَكَيْفَ كَانَ يُصَلِّيهَا
باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات نماز کا بیان اور آپ نماز کیسے پڑھتے تھے؟
حدیث نمبر: 398
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعَصْرَ وَإِنَّ أَحَدَنَا لَيَذْهَبُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَيَرْجِعُ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَنَسِيتُ الْمَغْرِبَ، وَكَانَ لَا يُبَالِي تَأْخِيرَ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، قَالَ: وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا، وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ وَمَا يَعْرِفُ أَحَدُنَا جَلِيسَهُ الَّذِي كَانَ يَعْرِفُهُ، وَكَانَ يَقْرَأُ فِيهَا مِنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ".
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے اور عصر اس وقت پڑھتے کہ ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے آخری کنارے پر جا کر وہاں سے لوٹ آتا، اور سورج زندہ رہتا (یعنی صاف اور تیز رہتا) اور مغرب کو میں بھول گیا، اور عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، پھر انہوں نے کہا: آدھی رات تک مؤخر کرنے میں (کوئی حرج محسوس نہیں کرتے) فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد بات چیت کو برا جانتے تھے، اور فجر پڑھتے اور حال یہ ہوتا کہ ہم میں سے ایک اپنے اس ساتھی کو جسے وہ اچھی طرح جانتا ہوتا، اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں پاتا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت 11 (541)، 13 (547)، 23 (568)، 38 (598)، صحیح مسلم/المساجد 40 (647)، سنن الترمذی/الصلاة 11 (168)، سنن النسائی/المواقیت 1 (496)، 16 (526)، 20 (531)، الافتتاح 42 (949)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 3 (674)، 12 (701)، (تحفة الأشراف: 11605)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/420، 421، 423، 424، 425)، سنن الدارمی/الصلاة 66 (1338)، ویأتي في الأدب 4894 (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا معمول رہا ہے کہ آپ اول وقت میں نماز پڑھتے تھے مگر نماز عشاء میں افضل یہ ہے کہ تاخیر کی جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی یہی تھا۔ عشاء سے پہلے سونا اور بعد ازاں لایعنی باتوں اور کاموں میں لگے رہنا مکروہ ہے الا یہ کہ کوئی اہم مقصد پیش نظر ہو جیسے کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مشغول گفتگو رہتے تھے۔ فجر کی نماز کے بارے میں صحیح احادیث میں وضاحت آئی ہے کہ فراغت کے بعد ہمار ایک آدمی اپنے ساتھی کو پہچان سکتا تھا نہ کہ نماز شروع کرتے وقت۔ فجر کی نماز میں قراءت مناسب حد تک لمبی ہونی چاہیے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 130  
´نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھنی چاہئے`
«. . . إذا راهم اجتمعوا عجل وإذا راهم ابطاوا اخر والصبح: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يصليها بغلس . . .»
. . . صبح کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے ہی میں پڑھتے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 130]

[130-أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ، حديث: 547، ومسلم، المساجد، باب وقت العشاء و تاخيرها، حديث 647، وحديث جابر أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، حديث: 560، ومسلم، المساجد، حيث 646، وحديث أبى موسي أخرجه مسلم، المساجد، حديث 614]

لغوي تشريح:
«رَحْلِهِ» را پر فتحه اور حا ساكن هے، یعنی جائے سکونت۔
«فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ» گرامر کے اعتبار سے یہ «رَحْل» سے حال واقع ہو رہا ہے۔ مدینہ کی انتہائی دور ترین جگہ۔
«وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ» اس میں واؤ حالیہ اور «يَرْجِعُ» کی ضمیر سے یہ جملہ حال واقع ہو رہا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ نماز سے فراغت کے بعد واپس جانے والا آدمی سورج غروب ہونے سے پہلے ہی اپنی جائے رہائش پر پہنچ جاتا (عصر کی نماز جلدی ادا کی جاتی تھی۔) اور سورج کے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ابھی سورج کی سفیدی، تپش والی روشنی اور حرارت باقی ہوتی تھی۔
«مِنَ الْعِشَاءَ» اس میں من تبعیضیہ ہے، مطلب یہ ہے کہ عشاء میں تھوڑی بہت تاخیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی۔
«يَنْفَتِلُ» «يَنْصَرِفُ» کے معنی میں ہے، یعنی فارغ ہوتے، پھرتے۔
«الْغَدَاةِ» فجر، صبح
«بِالسِّتِّينَ» ساٹھ آیات
«إِلَى الْمِائَةِ» سو تک، یعنی جب نماز میں اختصار کرنا چاہتے یا اگر آیات لمبی ہوتیں تو ساٹھ تک تلاوت فرماتے اور جب نماز لمبی کرنا چاہتے یا اگر آیات چھوٹی چھوٹی ہوتیں تو سو تک پڑھتے۔ نماز فجر ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ ایک ساتھی دوسرے ساتھی کو اچھی طرح پہچان نہ سکتا تھا۔ اتنی طویل قرأت اس بات کی دلیل ہے کہ نماز فجر اول وقت میں پڑھتے تھے۔
«الغَلَسٍ» صبح کی سیاہی اور تاریکی جو اس کے اول وقت میں ہوتی ہے اس «غلس» کہتے ہیں۔
«إنْشَقَّ» پھٹنا، تاریکیٔ شب سے سپیدۂ صبح کا ظاہر ہونا۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں لفظ «غَلَس» سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھتے تھے اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو آیات تک تلاوت فرمایا کرتے تھے اور وہ بھی ترتیل سے، ٹھہر ٹھہر کر۔ اس سے بھی اندازہ کر لیجئیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز کس وقت میں کرتے ہوں گے۔
➋ اس سے صاف معلوم ہوا کہ نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھنی چاہئے مگر صبح صادق کا اچھی طرح نمایاں ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ اس سے پہلے تو نماز کا وقت ہی نہیں ہوتا۔

راویٔ حدیث:
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ ابوبرزہ ان کی کنیت ہے۔ نضلہ بن عبید نام ہے۔ قدیم الاسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں فتح مکہ اور دوسرے غزوات میں شریک رہے۔ بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی، پھر بعد میں خراسان چلے گئے۔ اور ایک قول کے مطابق مرو یا بصرہ میں 90 ھجری میں وفات پائی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا سن وفات 64 ہجری ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 130   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 398  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات نماز کا بیان اور آپ نماز کیسے پڑھتے تھے؟`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے اور عصر اس وقت پڑھتے کہ ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے آخری کنارے پر جا کر وہاں سے لوٹ آتا، اور سورج زندہ رہتا (یعنی صاف اور تیز رہتا) اور مغرب کو میں بھول گیا، اور عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، پھر انہوں نے کہا: آدھی رات تک مؤخر کرنے میں (کوئی حرج محسوس نہیں کرتے) فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد بات چیت کو برا جانتے تھے، اور فجر پڑھتے اور حال یہ ہوتا کہ ہم میں سے ایک اپنے اس ساتھی کو جسے وہ اچھی طرح جانتا ہوتا، اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں پاتا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 398]
398۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا معمول رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں نماز پڑھتے تھے مگر نماز عشاء میں افضل یہ ہے کہ تاخیر کی جائے۔
➋ عشاء سے پہلے سونا اور بعد ازاں لایعنی باتوں اور کاموں میں لگے رہنا مکروہ، الّا یہ کہ کوئی اہم مقصد پیش نظر ہو، جیسے کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مشغول گفتگو رہے تھے، مگر شرط یہ ہے کہ فجر کی نماز بروقت ادا ہو۔ دینی و تبلیغی اجتماعات جو رات گئے تک جاری رہتے ہیں ان میں اس مسئلے کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ فجر کی نماز ضائع نہ ہو۔
➌ فجر کی نماز کے بارے میں صحیح احادیث میں وضاحت آئی ہے کہ فراغت کے بعد ہمارا ایک آدمی اپنے ساتھی کو پہچان سکتا تھا نہ کہ نماز شروع کرتے وقت۔
➍ فجر کی نماز میں قرأت مناسب حد تک لمبی ہونی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 398   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 531  
´عشاء کو تاخیر سے پڑھنے کے استحباب کا بیان۔`
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد دونوں ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو میرے والد نے ان سے پوچھا: ہمیں بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے تھے پھر ہم میں سے ایک آدمی (نماز پڑھ کر) مدینہ کے آخری کونے پر واقع اپنے گھر کو لوٹ آتا، اور سورج تیز اور بلند ہوتا، اور انہوں نے مغرب کے بارے میں جو کہا میں (اسے) بھول گیا، اور کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہوتا خیر سے پڑھنے کو پسند کرتے تھے، اور اس سے قبل سونے اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 531]
531 ۔ اردو حاشیہ: فوائد کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 526
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 531