صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
16. بَابُ الصَّدَقَةِ بِالْيَمِينِ:
باب: خیرات داہنے ہاتھ سے دینی بہتر ہے۔
حدیث نمبر: 1424
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: أَخْبَرَنِي مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ , قَالَ: سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ الْخُزَاعِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" تَصَدَّقُوا، فَسَيَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ يَمْشِي الرَّجُلُ بِصَدَقَتِهِ، فَيَقُولُ الرَّجُلُ لَوْ جِئْتَ بِهَا بِالْأَمْسِ لقَبِلْتُهَا مِنْكَ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا حَاجَةَ لِي فِيهَا".
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے معبد بن خالد نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ کیا کرو پس عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا (کوئی اسے قبول کر لے مگر جب وہ کسی کو دے گا تو وہ) آدمی کہے گا کہ اگر اسے تم کل لائے ہوتے تو میں لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی حاجت نہیں رہی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1424  
1424. حضرت حارثہ بن وہب بن خزاعی ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا:صدقہ وخیرات کیاکرو،عنقریب تم پر ایک وقت آنے والا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ اٹھائے پھرے گا، دوسرا آدمی کہے گا:اگر تو گزشتہ کل میرے پاس لے آتا تو میں تجھ سے یہ صدقہ قبول کرلیتا، لیکن آج مجھے تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1424]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ مرد مخلص اگر صدقہ زکوٰۃ علانیہ لے کر تقسیم کے لیے نکلے بشرطیکہ خلوص وللہیت مد نظر ہوتو یہ بھی مذموم نہیں ہے۔
یوں بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے ریا ونمود سے بچنے کے لیے پوشیدہ طورپر صدقہ زکوٰۃ خیرات دی جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1424   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1424  
1424. حضرت حارثہ بن وہب بن خزاعی ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا:صدقہ وخیرات کیاکرو،عنقریب تم پر ایک وقت آنے والا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ اٹھائے پھرے گا، دوسرا آدمی کہے گا:اگر تو گزشتہ کل میرے پاس لے آتا تو میں تجھ سے یہ صدقہ قبول کرلیتا، لیکن آج مجھے تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1424]
حدیث حاشیہ:
(1)
باب سے اس حدیث کی مطابقت یہ ہے کہ پہلی حدیث میں بھی حامل صدقہ کا ذکر تھا اور اس میں بھی حامل صدقہ کا ذکر ہے، کیونکہ جب وہ اپنے ہاتھ سے کرے گا تو زیادہ مخفی ہو گا، گویا اس حدیث میں مطلق صدقہ لا تعلم شماله ما تنفق يمينه کے معنی میں ہو گا۔
اس حدیث میں اگر پھر مطلق طور پر بیان ہوا ہے، تاہم پہلی حدیث کے پیش نظر اسے مقید کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 370/3) (2)
ہمارے نزدیک اس میں امام بخارى ؒ نے خود صدقہ دینے کی اہمیت کو بیان کیا ہے، کیونکہ آئندہ باب میں کسی دوسرے کو اپنی طرف سے صدقہ تقسیم کرنے پر مقرر کرنے کا بیان ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1424