سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
26. باب مَتَى يُؤْمَرُ الْغُلاَمُ بِالصَّلاَةِ
باب: بچے کو نماز پڑھنے کا حکم کب دیا جائے؟
حدیث نمبر: 494
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى يَعْنِي ابْنَ الطَّبَّاعِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مُرُوا الصَّبِيَّ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغَ سَبْعَ سِنِينَ، وَإِذَا بَلَغَ عَشْرَ سِنِينَ فَاضْرِبُوهُ عَلَيْهَا".
سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب دس سال کے ہو جائیں تو اس (کے ترک) پر انہیں مارو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 182 (407)، سنن الدارمی/الصلاة 141 (1471)، (تحفة الأشراف: 3810)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/404) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: اس حکم کا تعلق بچے اور بچی دونوں سے ہے اور مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر ونواہی اور دیگر آداب کی تلقین و مشق کا عمل شروع ہو جانا چاہیے تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اس کے خوب عادی ہو جائیں۔ اسلام میں جسمانی سزا کا تصور موجود ہے مگر بے تکا نہیں ہے۔ پہلے تین سال تک تو ایک طرح سے والدین کا امتحان ہے کہ زبانی تلقین سے کام لیں اور خود عملی نمونہ پیش کریں۔ اس کے بعد سزا بھی دیں مگر ایسی جو زخمی نہ کرے اور چہرے پر بھی نہ مارا جائے۔ کیونکہ چہرے پر مارنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 494  
´بچے کو نماز پڑھنے کا حکم کب دیا جائے؟`
سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب دس سال کے ہو جائیں تو اس (کے ترک) پر انہیں مارو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 494]
494۔ اردو حاشیہ:
اس حکم کا تعلق بچے اور بچی دونوں سے ہے اور مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر و نواہی اور دیگر آداب کی تلقین و مشق کا عمل شروع ہو جانا چاہیے تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اس کے خوب عادی ہو جائیں۔
➊ اسلام میں جسمانی سزا کا تصور موجود ہے، مگر بےتکا نہیں ہے۔ پہلے تین سال تک تو ایک طرح سے والدین کا امتحان ہے کہ زبانی تلقین سے کام لیں اور خود عملی نمونہ پیش کریں۔ اس کے بعد سزا بھی دیں مگر ایسی جو زخمی نہ کرے اور چہرے پر بھی نہ مارا جائے کیونکہ چہرے پر مارنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ [سنن أبى داود، حديث نمبر: 4493]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 494