سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
28. باب كَيْفَ الأَذَانُ
باب: اذان کس طرح دی جائے؟
حدیث نمبر: 507
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ أَبِي دَاوُدَ. ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: أُحِيلَتِ الصَّلَاةُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ، وَأُحِيلَ الصِّيَامُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ، وَسَاقَ نَصْرٌ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَاقْتَصَّ ابْنُ الْمُثَنَّى مِنْهُ قِصَّةَ صَلَاتِهِمْ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَطْ، قَالَ: الْحَالُ الثَّالِثُ" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَصَلَّى يَعْنِي نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثَلَاثَةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ سورة البقرة آية 144، فَوَجَّهَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَى الْكَعْبَةِ، وَتَمَّ حَدِيثُهُ، وَسَمَّى نَصْرٌ صَاحِبَ الرُّؤْيَا، قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَقَالَ فِيهِ: فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ مَرَّتَيْنِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ مَرَّتَيْنِ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ أَمْهَلَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ مِثْلَهَا، إِلَّا أَنَّهُ، قَالَ: زَادَ بَعْدَ مَا قَالَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقِّنْهَا بِلَالًا، فَأَذَّنَ بِهَا بِلَالٌ، وقَالَ فِي الصَّوْمِ: قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَيَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَى قَوْلِهِ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 183 ـ 184، فَكَانَ مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يُفْطِرَ وَيُطْعِمَ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا أَجْزَأَهُ ذَلِكَ وَهَذَا حَوْلٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْءَانُ إِلَى أَيَّامٍ أُخَرَ سورة البقرة آية 185 فَثَبَتَ الصِّيَامُ عَلَى مَنْ شَهِدَ الشَّهْرَ، وَعَلَى الْمُسَافِرِ أَنْ يَقْضِيَ، وَثَبَتَ الطَّعَامُ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ اللَّذَيْنِ لَا يَسْتَطِيعَانِ الصَّوْمَ، وَجَاءَ صِرْمَةُ وَقَدْ عَمِلَ يَوْمَهُ"، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز میں تین تبدیلیاں ہوئیں، اسی طرح روزوں میں بھی تین تبدیلیاں ہوئیں، پھر نصر نے پوری لمبی حدیث بیان کی اور ابن مثنیٰ نے صرف بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کیا۔ معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تیسری حالت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، آپ نے بیت المقدس کی طرف (رخ کر کے) تیرہ مہینے تک نماز پڑھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجدالحرام وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره» ۱؎ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ ابن مثنیٰ کی حدیث یہاں مکمل ہو گئی اور نصر نے خواب دیکھنے والے کا نام ذکر کیا، وہ کہتے ہیں: انصار کے ایک شخص عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ آئے۔ اس میں یوں ہے کہ: پھر انہوں نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور کہا: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة» دوبار، «حى على الفلاح» دوبار، «الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله»، یہ کہنے کے بعد تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے، پھر کھڑے ہوئے اور اسی طرح (تکبیر) کہی، مگر اس میں انہوں نے: «حى على الفلاح» کے بعد «قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة» کا اضافہ کیا۔ راوی کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم بلال کو یہ الفاظ سکھلا دو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ اذان دی۔ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے روزے کے بارے میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے اور عاشوراء (دسویں محرم) کا روزہ بھی رکھتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم» اللہ تعالیٰ کے قول: «طَعَامُ مسكين» تک ۲؎، تو اب جو چاہتا روزے رکھتا، اور جو چاہتا نہ رکھتا، اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا، ایک سال تک یہی حکم رہا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: «شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن» اپنے قول: «أيام أخر» تک ۳؎، پھر روزہ ہر اس شخص پر فرض ہو گیا جو ماہ رمضان کو پائے، اور مسافر پر قضاء کرنا، اور بوڑھے مرد اور عورت کے لیے جن کو روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو فدیہ دینا باقی رہا۔ پھر صرمہ رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے دن بھر کام کیا تھا ... اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 11344، 15627، 18972) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ہم آپ کا چہرہ باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، تو اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر رہے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں تو آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں، اور مسلمانو! تم جہاں کہیں بھی رہو نماز کے وقت اپنا رخ اسی کی طرف پھیرے رکھو (سورۃ البقرۃ:۱۴۴)
۲؎: اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کر دیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو، یہ گنتی کے چند ہی دن ہیں، لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پوری کرے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کا کھانا دیں (سورۃ البقرۃ:۱۸۴)
۳؎: ماہ رمضان ہی ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے، اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل میں تمیز کی واضح نشانیاں ہیں، لہٰذا جو تم میں سے اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے، اور جو کوئی بیمار یا مسافر ہو وہ اور دنوں سے گنتی پوری کرے (سورۃ البقرۃ:۱۸۴-۱۸۵)

قال الشيخ الألباني: صحيح بتربيع التكبير في أوله
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 507  
´اذان کس طرح دی جائے؟`
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز میں تین تبدیلیاں ہوئیں، اسی طرح روزوں میں بھی تین تبدیلیاں ہوئیں، پھر نصر نے پوری لمبی حدیث بیان کی اور ابن مثنیٰ نے صرف بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کیا۔ معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تیسری حالت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، آپ نے بیت المقدس کی طرف (رخ کر کے) تیرہ مہینے تک نماز پڑھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجدالحرام وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره» ۱؎ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ ابن مثنیٰ کی حدیث یہاں مکمل ہو گئی اور نصر نے خواب دیکھنے والے کا نام ذکر کیا، وہ کہتے ہیں: انصار کے ایک شخص عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ آئے۔ اس میں یوں ہے کہ: پھر انہوں نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور کہا: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة» دوبار، «حى على الفلاح» دوبار، «الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله»، یہ کہنے کے بعد تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے، پھر کھڑے ہوئے اور اسی طرح (تکبیر) کہی، مگر اس میں انہوں نے: «حى على الفلاح» کے بعد «قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة» کا اضافہ کیا۔‏‏‏‏ راوی کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم بلال کو یہ الفاظ سکھلا دو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ اذان دی۔ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے روزے کے بارے میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے اور عاشوراء (دسویں محرم) کا روزہ بھی رکھتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم» اللہ تعالیٰ کے قول: «طَعَامُ مسكين» تک ۲؎، تو اب جو چاہتا روزے رکھتا، اور جو چاہتا نہ رکھتا، اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا، ایک سال تک یہی حکم رہا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: «شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن» اپنے قول: «أيام أخر» تک ۳؎، پھر روزہ ہر اس شخص پر فرض ہو گیا جو ماہ رمضان کو پائے، اور مسافر پر قضاء کرنا، اور بوڑھے مرد اور عورت کے لیے جن کو روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو فدیہ دینا باقی رہا۔ پھر صرمہ رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے دن بھر کام کیا تھا ... اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 507]
507۔ اردو حاشیہ:
حضرت صرمہ کا قصہ مسند احمد 5/246۔ 247 میں یوں ہے۔ ایک صحابی جن کا نام صرمہ تھا۔ سارا دن روزے کی حالت میں کام کرتے رہے۔ جب شام ہوئی تو اپنے گھر والوں کے پاس آئے۔ اور کچھ کھائے پیئے بغیر نماز عشاء پڑھ کر سو گئے۔ حتیٰ کہ صبح ہو گئی اور روزہ رکھ لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ وہ ازحد نڈھال تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے کہ اس قدر نڈھال ہو رہے ہو۔؟ انہوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول! میں کل سارا دن کام کرتا رہا۔ جب واپس آیا تو بس اپنے آپ کو ڈال دیا۔ اور سو گیا اور صبح ہو گئی۔ تو اس طرح روزہ رکھ لیا۔ راوی نے کہا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی کچھ سو لینے کے بعد اپنی کسی بیوی یا لونڈی کے پاس آئے۔۔۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا قصہ بتایا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ «أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ» تمہارے لئے حلال ہے کہ تم روزے کی رات میں اپنی بیویوں سے ہم بستر ہو سکتے ہو۔ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنی جانوں کی خیانت کرتے تھے۔ تو اس نے معاف کیا اور درگزر کیا۔ سو مباشرت کرو اپنی عورتوں سے اور جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اسے طلب کرو۔ اور کھاؤ پیو حتیٰ کے صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے نمایاں نظرآنے لگے۔ پھر رات تک روزہ پورا کرو۔ عون المبعود ملحوظه۔ حديث 506 اور 5067 کو ہمارے فاضل شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن ان کے بعض شواہد حدیث میں موجود ہیں۔ غالباً انہیں شواہد کی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ان دونوں حدیثوں کی تصیح کی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: الموسوعة الحدیثیة۔ 436/36، 442۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 507