سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
36. باب مَا يَقُولُ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ
باب: آدمی جب مؤذن کی آواز سنے تو کیا کہے؟
حدیث نمبر: 523
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ، وَحَيْوَةَ، وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ تَعَالَى، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ، حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب تم مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے، پھر میرے اوپر درود بھیجو، اس لیے کہ جو شخص میرے اوپر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرمائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو، وسیلہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا، جس شخص نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 7 (384)، سنن الترمذی/المناقب 1 (3614)، سنن النسائی/الأذان 37 (679)، (تحفة الأشراف: 8871)، مسند احمد (2/168) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  ابن جلال دين حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 523  
´اذان کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وسیلہ طلب کرنا`
«. . . ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي الْوَسِيلَةَ . . .»
. . . اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ: 523]

فوائد و مسائل:
لغوی طور پر وسیلہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی ذات تک رسائی یا قرب حاصل کیا جا سکتا ہو۔
لغت عرب کی قدیم اور معروف کتاب الصحاح میں ہے:
«الوسيلة: ما يتقرب به إلى الغير.»
وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی کا قرب حاصل کیا جائے۔ [الصحاح تاج اللغة و صحاح العربية لأبي نصر إسماعيل بن حماد الجوهري المتوفيٰ 393ه، باب اللام، فصل الواو، مادة وسل: 1841/5، دارالعلم للملايين، بيروت، 1407ه]

◈ مشہور لغوی اور اصولی، علامہ مبارک بن محمد المعروف بہ ابن الاثیر جزری (544 – 606 ھ) لکھتے ہیں:
«في حديث الأذان: اللهم آت محمدا الوسيلة، هي فى الأصل: ما يتوصل به إلى الشيء ويتقرب به، وجمعها: وسائل، يقال: وسل إليه وسيلة وتوسل والمراد به فى الحديث القرب من الله تعالىٰ، وقيل: هي الشفاعة يوم القيامة.»
اذان (کا جواب دینے کی فضیلت) والی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو وسیلہ دے۔ وسیلہ اصل میں وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی چیز تک پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے۔ اس کی جمع وسائل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں کی طرف وسیلہ بنایا۔ حدیث نبوی میں وسیلے سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن ہونے والی شفاعت ہے۔ [النهاية فيي غريب الحديث والأثر، باب الواو مع السين، مادة وسل:555/5، المكتبة العلمية، بيروت، 1399 ه]

◈مشہور لغوی، علامہ ابوالفضل محمد بن مکرم بن علی، المعروف بہ ابن منظور افریقی (م: 711 ھ) لکھتے ہیں:
«الوسيلة: المنزلة عند الملك، والوسيلة: الدرجة، والوسيلة: القربة.»
وسیلہ سے مراد بادشاہ کے ہاں مقام و مرتبہ ہے۔ اس کا معنی درجہ اور قربت بھی ہوتا ہے۔ [لسان العرب، حرف اللام، فصل الواو، مادة وسل: 724/11، دار صادر، بيروت، 1414 ه]
↰ معلوم ہوا کہ وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور اس سے مراد نیک اعمال ہیں، جیسا کہ:
✿ فرمان باری تعالیٰ ہے:
« ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ﴾ » [المائده: 35:5]
اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہ وسیلہ کیا ہے؟ تمام سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد نیک اعمال ہیں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 43، 44، 45، حدیث/صفحہ نمبر: 2   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 523  
´آدمی جب مؤذن کی آواز سنے تو کیا کہے؟`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب تم مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے، پھر میرے اوپر درود بھیجو، اس لیے کہ جو شخص میرے اوپر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرمائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو، وسیلہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا، جس شخص نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 523]
523۔ اردو حاشیہ:
➊ جواب اذان کا حکم استحباب پر محمول ہے اور شرعی عذر کے علاوہ تمام کیفیتوں میں اس کا جواب دینا چاہیے۔ حدث، جنابت اور حیض اس سے مانع نہیں ہیں۔ نیز اقامت کا جواب بھی اس سے ماخوذ ہے۔ [امام نووي]
➋ جواب ہر کلمہ پر دینا چاہیے نہ کہ اذان مکمل ہونے پر تاہم ساتھ ساتھ جواب دینے میں کوئی معقول رکاوٹ ہو تو آخر میں اذان کا مکمل جواب دے کر دعایئں پڑھ لے۔ دعوت عمل میں ترغیب و تشویش کا پہلو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درود پڑھنے کا اجر اسی پہلو سے ارشاد فرمایا ہے۔
➌ اعمال میں اخلاص شرط ہے۔

ملحوظہ۔ تعجب ہے کہ بدعتی لوگ اپنی دعاؤں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر مشروع وسیلے پر اصرار کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت سے مطالبہ فرما رہے ہیں کہ میر لئے وسیلے کا اللہ سے سوال کرو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 523   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 679  
´اذان کے بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر درود (صلاۃ) بھیجنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: جب مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے، اور مجھ پر صلاۃ و سلام ۱؎ بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک بار صلاۃ بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت و برکت بھیجتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ ۲؎ طلب کرو کیونکہ وہ جنت میں ایک درجہ و مرتبہ ہے جو کسی کے لائق نہیں سوائے اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کے، اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں، تو جو میرے لیے وسیلہ طلب کرے گا، اس پر میری شفاعت واجب ہو جائے گی ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 679]
679 ۔ اردو حاشیہ: اذان کہنے کے بعد درود ابراہیمی پڑھا جائے گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خصوصی دعا کی جائے گی جس کی تفصیل اگلی احادیث میں آرہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 679   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3614  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا بیان`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب تم مؤذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ۱؎ پھر میرے اوپر صلاۃ (درود) بھیجو کیونکہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گئی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3614]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سوائے (حَيَّ عَلَى الصَّلاة،
حَيَّ عَلَى الْفَلَاح)
کے اس جواب میں کہا جائے گا،
(لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ) مطلب یہ ہے کہ مؤذن جو صلاۃ وفلاح کے لیے پکار رہا ہے،
تو اس پکار کا جواب ہم بندے بغیر اللہ کے عطا کردہ طاقت وتوفیق کے نہیں دے سکتے،
یعنی نماز میں نہیں حاضر ہو سکتے جب تک کہ اللہ کی مدد اور توفیق نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3614