سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
41. باب فِي الأَذَانِ قَبْلَ دُخُولِ الْوَقْتِ
باب: وقت سے پہلے اذان دیدے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 532
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَدَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ،" أَنّ بِلَالًا أَذَّنَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْجِعَ فَيُنَادِيَ: أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ قَدْ نَامَ أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ قَدْ نَامَ، زَادَ مُوسَى: فَرَجَعَ فَنَادَى: أَلَا إِنَّ الْعَبْدَ قَدْ نَامَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا الْحَدِيثُ لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَيُّوبَ إِلَّا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کا وقت ہونے سے پہلے اذان دے دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ دوبارہ اذان دیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہیں: سنو، بندہ سو گیا تھا، سنو، بندہ سو گیا تھا۔ موسیٰ بن اسماعیل کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے دوبارہ اذان دی اور بلند آواز سے کہا: سنو، بندہ سو گیا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ایوب سے حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 7587) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 152  
´صبح صادق سے پہلے اذان کہنا`
«. . . وعن ابن عمر رضي الله عنهما ان بلالا اذن قبل الفجر فامره النبي صلى الله عليه وآله وسلم ان يرجع فينادي: «‏‏‏‏الا إن العبد نام . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ (ایک روز) بلال رضی اللہ عنہ نے طلوع فجر سے پہلے ہی اذان کہہ دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دوبارہ اذان کہنے کا حکم دیا (تو بلال رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہ کر منادی کی) خبردار! سنو بندہ کو نیند آ گئی تھی . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 152]

لغوی تشریح:
«أَذَّنَ قَبْلَ الْفَجْرِ» طلوع فجر سے قبل اذان کہی، اس گمان کی بنا پر کہ فجر طلوع ہو چکی ہے (حالانکہ طلوع نہیں ہوئی تھی۔) یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ طلوع فجر صادق سے پہلے اذان دینا مشروع نہیں تھا۔

فائدہ:
جب ابتدا میں صرف سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ہی اذان کہتے تھے۔ پھر جب ان کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو بھی مؤذن مقرر کیا گیا تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ پہلی اذان، صبح صادق سے پہلے دیتے اور سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ صبح صادق ہونے کے بعد دوسری اذان نماز فجر کے لیے دیتے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ) ان کا نام عمرو یا عبداللہ بن قیس قرشی عامری ہے جن کا ذکر مفسرین نے سورۂ عبس کی شان نزول میں کیا ہے۔ قدیم الاسلام تھے۔ ہجرت بھی کی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عدم موجودگی میں ان کو تیرہ مرتبہ مدینہ میں اپنا نائب (قائم مقام) مقرر فرمایا کہ لوگوں کی امامت کے فرائض انجام دیں۔ آپ کی آنکھوں کی بینائی نہیں تھی۔ جنگ قادسیہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔ اس روز جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 152