سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
42. باب الأَذَانِ لِلأَعْمَى
باب: نابینا آدمی کی اذان کا بیان۔
حدیث نمبر: 535
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ كَانَ مُؤَذِّنًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ أَعْمَى".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے اور وہ نابینا تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 5 (381)، (تحفة الأشراف: 16907) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: نابینے شخص کا اذان دینا یا امامت کا اہل ہونے کی صورت میں امامت کرانا بالکل صحیح اور جائز ہے اور اذان کے بارے میں ظاہر ہے کہ کوئی دوسرا ہی اس کی رہنمائی کرے گا اور آج کل تو ایسی گھڑیاں بھی ایجاد ہو چکی ہیں جن سے ایسے لوگوں کو وقت معلوم کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 535  
´نابینا آدمی کی اذان کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے اور وہ نابینا تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 535]
535۔ اردو حاشیہ:
نابینے شخص کا اذان دینا یا امامت کا اہل ہونے کی صورت میں امامت کرانا بالکل صحیح اور جائز ہے۔ اذان کے بارے میں ظاہر ہے کہ کوئی دوسرا ہی اس کی رہنمائی کرے گا۔ اور آج کل تو ایسی گھڑیاں بھی ایجاد ہو چکی ہیں، جن سے ایسے لوگوں کو وقت معلوم کرنے میں دقت نہیں ہوتی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 535   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 640  
´کیا دونوں مؤذن ایک ساتھ اذان دیتے تھے یا یکے بعد دیگرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں، ان دونوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اتر رہے ہوتے اور وہ چڑھ رہے ہوتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 640]
640 ۔ اردو حاشیہ:
ایک اترتا اور دوسرا چڑھ جاتا تھا۔ اس سے قلت میں مبالغہ مقصود ہے، جیسا کہ عرف میں اس قسم کے جملے مشہور ہیں، ورنہ تو دو اذانوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی اکثر کتب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ اذان اول کا آغاز رات کے دوسرے نصف حصے سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علماء کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلا مؤذن اذان کے بعد بیٹھا ذکر و دعا کرتا رہتا تھا حتیٰ کہ فجر طلوع ہوتی اور اسے نظر آنے لگتی تو وہ نیچے اتر کر دوسرے مؤذن کو اوپر بھیج دیتا تھا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ دوسرے مؤذن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینے تھے، فجر نہیں دیکھ سکتے تھے، انہیں اطلاع دینا ضروری تھا۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس قول کی تردید میں فرماتے ہیں: سیاق حدیث کی واضح مخالفت کے ساتھ ساتھ یہاں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کون سی خاص دلیل ہے جس کی بنا پر انہوں نے اس معنی کی تصحیح کی ہے اور یہ مفہوم مراد لیا ہے یہاں تک کہ ان کے لیے یہ تاویل کرنا جائز ہو گئی؟ دیکھیے: [فتح الباري: 125/2]
بہرحال لگتا ہے کہ دونوں اذانوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا، اسے منٹوں ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے، گھنٹوں میں نہیں، یعنی اندازاً 20، 30 منٹ کا فاصلہ ہوتا ہو گا۔ واللہ أعلم۔
➌ روایت سے ثابت ہوا کہ دو مؤذن الگ الگ اذان کی پہچان کی سہولت کے لیے تھے نہ کہ اس لیے کہ دونوں اکٹھے اذان کہیں۔ اس کا تو کوئی فائدہ ہی نہ تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 640