سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
47. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ
باب: جماعت چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔
حدیث نمبر: 551
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي جَنَابٍ، عَنْ مَغْرَاءَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنَ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ، قَالُوا: وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى عَنْ مَغْرَاءَ أَبُو إِسْحَاقَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اذان کی آواز سنے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے اسے کوئی عذر مانع نہ ہو (لوگوں نے عرض کیا: عذر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: خوف یا بیماری) تو اس کی نماز جو اس نے پڑھی قبول نہ ہو گی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات 17 (793)، (تحفة الأشراف: 5560) (صحیح)» ‏‏‏‏ (لیکن «ما العذر» والا جملہ صحیح نہیں ہے، نیز صحیح لفظ «لا صلاة له» ہے) (ابن ماجہ وغیرہ کی سند سے یہ حدیث صحیح ہے ورنہ مؤلف کی سند میں ابوجناب کلبی اور مغراء ضعیف راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة العذر وبلفظ ولا صلاة
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث793  
´جماعت سے پیچھے رہنے پر سخت وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اذان سنی لیکن مسجد میں نہیں آیا تو اس کی نماز نہیں ہو گی، الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 793]
اردو حاشہ:
نماز نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے نماز کا پورا ثواب نہ ملے گا یا وہ اس کی برکات سے محروم رہے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 793   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 318  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اذان سنے اور پھر نماز باجماعت میں شامل نہ ہو اس کی کوئی نماز نہیں الایہ کہ کوئی عذر مانع نہ ہو۔
اسے ابن ماجہ، دارقطنی، ابن حبان، حاکم نے روایت کیا ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق ہے لیکن بعض نے اس کے موقوف ہونے کو ترجیح دی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 318»
تخریج:
«أخرجه ابن ماجه، المساجد، باب التغليظ في التخلف عن الجماعة، حديث:793، والدار قطني:1 /420، وابن حبان (الإحسان): 3 /253، حديث:2061، والحاكم:1 /245، وتاريخ واسط لبحشل ص:202، وهيشم صرح بالسماع عنده.»
تشریح:
اس حدیث سے بھی نماز باجماعت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
ابوداود میں اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ وہ عذر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: خوف اور بیماری۔
نیز اس میں «لاَصَلاَۃَ…» کی بجائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وہ نماز قبول نہیں کرتا‘ مگر اس کی سند میں ضعف ہے۔
(سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب التشدید في ترک الجماعۃ‘ حدیث:۵۵۱) نیز باد و باراں‘ یخ ٹھنڈی ہوا اور خوف وغیرہ بھی عذر میں شامل ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 318