سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
47. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ
باب: جماعت چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔
حدیث نمبر: 552
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، عَنْ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ، شَاسِعُ الدَّارِ، وَلِي قَائِدٌ لَا يُلَائِمُنِي، فَهَلْ لِي رُخْصَةٌ أَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِي؟ قَالَ: هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: لَا أَجِدُ لَكَ رُخْصَةً".
عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میں نابینا آدمی ہوں، میرا گھر بھی (مسجد سے) دور ہے اور میری رہنمائی کرنے والا ایسا شخص ہے جو میرے لیے موزوں و مناسب نہیں، کیا میرے لیے اپنے گھر میں نماز پڑھ لینے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اذان سنتے ہو؟، انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پھر تو) میں تمہارے لیے رخصت نہیں پاتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات 17 (752)، (تحفة الأشراف: 10788)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الإمامة 50 (851)، مسند احمد (3/423) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 553  
´جماعت چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول! مدینے میں کیڑے مکوڑے اور درندے بہت ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم «حى على الصلاة» اور «حى على الفلاح» (یعنی اذان) سنتے ہو؟ تو (مسجد) آیا کرو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے قاسم جرمی نے سفیان سے روایت کیا ہے، ان کی روایت میں «حى هلا» (آیا کرو) کا ذکر نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 553]
553۔ اردو حاشیہ:
یہ اور دیگر احادیث واضح دلیل ہیں کہ نماز باجماعت واجب ہے، سب جانتے ہیں کہ خوف کے موقع پر بھی صلاۃ خوف باجماعت ہی مشروع ہے۔ اور اصحاب اعذار کے لئے دلائل سے ثابت ہے کہ جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت ضرور ہے، مگر اس فضیلت سے محروم رہیں گے۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ جناب عبداللہ ابن مکتوم کو رخصت نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ شاید ان کا سوال عزیمت کے متعلق تھا۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں جا کر ان کی جائے نماز کا افتتاح فرمایا تھا۔ اور مذکورہ بالا حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں بھی شرعی عذر خوف یا مرض کا استثناء موجود ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 553   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث792  
´جماعت سے پیچھے رہنے پر سخت وعید کا بیان۔`
عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں بوڑھا اور نابینا ہوں، میرا گھر دور ہے اور مجھے مسجد تک لانے والا میرے مناسب حال کوئی آدمی بھی نہیں ہے، تو کیا آپ میرے لیے (جماعت سے غیر حاضری کی) کوئی رخصت پاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اذان سنتے ہو؟، میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 792]
اردو حاشہ:
(1)
ہمارے فاضل محقق ؒ مذکورہ حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن صحیح مسلم کی روایت ہے (653)
اس سے کفایت کرتی ہے۔
تفصیل کے لیے حدیث کی تحقیق وتخریج ملاحظہ فرمائیں۔
نیز دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 255، 244، 243/24)
اس حدیث سے نماز باجماعت کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ ان کے متعدد عذر موجود تھے:

(ا)
وہ معمر تھے۔

(ب)
وہ نابینا تھے۔

(ج)
ان کا گھر دور تھا۔

(د)
ان کے گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو انھیں مسجد میں لانے کا فرض مستقل طور پر انجام دے سکے۔

(ھ)
جو شخص انھیں مسجد میں لاتا تھا وہ بھی ان کی مرضی کے مطابق خدمت انجام نہیں دیتا تھا بلکہ اپنی سہولت کو زیادہ مد نظر رکھتا تھا۔ (وَلَيْسَ لِي قَائِدٌ يُلَاوِمُنِي)
 کوئی میری مرضی کے مطابق لانے والا نہیں۔
کا یہی مطلب ہے۔

(د)
ان کےگھر اور مسجد کے درمیان نشیبی علاقہ تھا جس میں بارش کے موقع پر پانی جمع ہوجاتا تھا۔
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:
(صلاة الجماعة، أهمتيها وفضلها، تصنیف:
ڈاکٹر فضل الہی۔)


(3)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم کو جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ ثواب ملے۔
اس کا مقصد ترغیب تھا ورنہ نابینا آدمی اگر مسجد میں آنے میں دشواری محسوس کرے تو اسے گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
جیسے کہ نبی ﷺ نے حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کو اجاذت دےدی تھی۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجه حديث: 754)

(4)
رسول الله ﷺ نے ان سے اذان کے متعلق پوچھا کہ آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص آبادی سے دور قیام پذیر ہو جہاں عام طور پر اذان کی آواز نہیں پہنچتی وہ وہیں نماز ادا کرسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 792