صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
20. بَابُ مَنْ أَحَبَّ تَعْجِيلَ الصَّدَقَةِ مِنْ يَوْمِهَا:
باب: خیرات کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
لِقَوْلِهِ: الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلا أَذًى سورة البقرة آية 262.
‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے اس کی وجہ سے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1430
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَن عُقْبَةَ بْنَ الْحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ , قَالَ:" صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ فَأَسْرَعَ، ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ خَرَجَ فَقُلْتُ أَوْ قِيلَ لَهُ: فَقَالَ: كُنْتُ خَلَّفْتُ فِي الْبَيْتِ تِبْرًا مِنَ الصَّدَقَةِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُبَيِّتَهُ فَقَسَمْتُهُ".
ہم سے ابوعاصم نبیل نے عمر بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ادا کی پھر جلدی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد باہر تشریف لے آئے۔ اس پر میں نے پوچھا یا کسی اور نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں گھر کے اندر صدقہ کے سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ اسے تقسیم کئے بغیر رات گزاروں پس میں نے اس کو بانٹ دیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1430  
1430. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی، اس کے بعد جلد ہی گھر تشریف لے آئے، ابھی کچھ ہی دیر ٹھہرے تھے کہ باہر تشریف لائے، اس پرمیں نے یا کسی اور نے دریافت کیا تو فرمایا:میں گھر میں صدقے کے مال سے ناخالص سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا، مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ اسے تقسیم کیے بغیر رات بسرکرلوں، اس لیے میں نے اسے تقسیم کردیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1430]
حدیث حاشیہ:
(حدیث سے ثابت ہوا کہ)
خیرات اور صدقہ کرنے میں جلدی کرنا بہتر ہے۔
ایسا نہ ہو کہ موت آجائے یا مال باقی نہ رہے اور ثواب سے محروم رہ جائے۔
باب کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صاحب نصاب سال تمام ہونے سے پہلے ہی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردے۔
اس بارے میں مزید وضاحت اس حدیث میں ہے۔
عَنْ عَلِيٍّ، «أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ» (رواہ أبوداود، والترمذي وابن ماجة والدارمي)
یعنی حضرت عباس ؓ نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیاوہ اپنی زکوٰۃ سال گزرنے سے پہلے بھی ادا کرسکتے ہیں؟ اس پر آپ نے ان کو اجازت بخش دی۔
قال ابن مالك هذا یدل علی جواز تعجیل الزکوة بعد حصول النصاب قبل تمام الحول الخ (مرعاۃ)
یعنی ابن مالک نے کہا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ نصاب مقررہ حاصل ہونے کے بعد سال پورا ہونے سے پہلے بھی زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1430   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1430  
1430. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی، اس کے بعد جلد ہی گھر تشریف لے آئے، ابھی کچھ ہی دیر ٹھہرے تھے کہ باہر تشریف لائے، اس پرمیں نے یا کسی اور نے دریافت کیا تو فرمایا:میں گھر میں صدقے کے مال سے ناخالص سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا، مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ اسے تقسیم کیے بغیر رات بسرکرلوں، اس لیے میں نے اسے تقسیم کردیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1430]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خیرات اور صدقہ کرنے میں جلدی کرنا بہتر ہے، مبادا موت آ جائے یا مال باقی نہ رہے اور انسان اسے روک کر ثواب سے محروم رہ جائے، اس لیے نیکی کے کام میں جلدی کرنی چاہیے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں صدقہ کرنے میں جلدی کرنے کے استحباب کو بیان کیا ہے، حالانکہ حدیث سے واضح طور پر تو تاخیر کی کراہت معلوم ہو رہی ہے، لہذا امام صاحب کو کراہت تاخیر کا عنوان قائم کرنا چاہیے تھا جو کہ حدیث سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری ؒ حسب عادت دقیق نظری کو پسند کرتے اور باریک بینی کو ظاہر بات پر ترجیح دیتے ہیں، اس بنا پر امام بخاری نے استحبابِ تعجیل کا عنوان قائم کیا ہے۔
(فتح الباري: 377/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1430