سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
51. باب مَا جَاءَ فِي الْهَدْىِ فِي الْمَشْىِ إِلَى الصَّلاَةِ
باب: نماز کی طرف چلنے کے طریقے کا بیان۔
حدیث نمبر: 563
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاذِ بْنِ عَبَّادٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: حَضَرَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ الْمَوْتُ، فَقَالَ: إِنِّي مُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا مَا أُحَدِّثُكُمُوهُ إِلَّا احْتِسَابًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ لَمْ يَرْفَعْ قَدَمَهُ الْيُمْنَى، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ حَسَنَةً، وَلَمْ يَضَعْ قَدَمَهُ الْيُسْرَى، إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ سَيِّئَةً، فَلْيُقَرِّبْ أَحَدُكُمْ أَوْ لِيُبَعِّدْ، فَإِنْ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى فِي جَمَاعَةٍ غُفِرَ لَهُ، فَإِنْ أَتَى الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّوْا بَعْضًا وَبَقِيَ بَعْضٌ صَلَّى مَا أَدْرَكَ وَأَتَمَّ مَا بَقِيَ كَانَ كَذَلِكَ، فَإِنْ أَتَى الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّوْا فَأَتَمَّ الصَّلَاةَ كَانَ كَذَلِكَ".
سعید بن مسیب کہتے ہیں ایک انصاری کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے کہا: میں تم لوگوں کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں اور اسے صرف ثواب کی نیت سے بیان کر رہا ہوں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر نماز کے لیے نکلے تو وہ جب بھی اپنا داہنا قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے، اور جب بھی اپنا بایاں قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے لہٰذا تم میں سے جس کا جی چاہے مسجد سے قریب رہے اور جس کا جی چاہے مسجد سے دور رہے، اگر وہ مسجد میں آیا اور اس نے جماعت سے نماز پڑھی تو اسے بخش دیا جائے گا اور اگر وہ مسجد میں اس وقت آیا جب کہ (جماعت شروع ہو چکی تھی اور) کچھ رکعتیں لوگوں نے پڑھ لی تھیں اور کچھ باقی تھیں پھر اس نے جماعت کے ساتھ جتنی رکعتیں پائیں پڑھیں اور جو رہ گئی تھیں بعد میں پوری کیں تو وہ بھی اسی طرح (اجر و ثواب کا مستحق) ہو گا، اور اگر وہ مسجد میں اس وقت پہنچا جب کہ نماز ختم ہو چکی تھی اور اس نے اکیلے پوری نماز پڑھی تو وہ بھی اسی طرح ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود،(تحفة الأشراف: 15583) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 563  
´نماز کی طرف چلنے کے طریقے کا بیان۔`
سعید بن مسیب کہتے ہیں ایک انصاری کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے کہا: میں تم لوگوں کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں اور اسے صرف ثواب کی نیت سے بیان کر رہا ہوں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر نماز کے لیے نکلے تو وہ جب بھی اپنا داہنا قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے، اور جب بھی اپنا بایاں قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے لہٰذا تم میں سے جس کا جی چاہے مسجد سے قریب رہے اور جس کا جی چاہے مسجد سے دور رہے، اگر وہ مسجد میں آیا اور اس نے جماعت سے نماز پڑھی تو اسے بخش دیا جائے گا اور اگر وہ مسجد میں اس وقت آیا جب کہ (جماعت شروع ہو چکی تھی اور) کچھ رکعتیں لوگوں نے پڑھ لی تھیں اور کچھ باقی تھیں پھر اس نے جماعت کے ساتھ جتنی رکعتیں پائیں پڑھیں اور جو رہ گئی تھیں بعد میں پوری کیں تو وہ بھی اسی طرح (اجر و ثواب کا مستحق) ہو گا، اور اگر وہ مسجد میں اس وقت پہنچا جب کہ نماز ختم ہو چکی تھی اور اس نے اکیلے پوری نماز پڑھی تو وہ بھی اسی طرح ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 563]
563۔ اردو حاشیہ:
اس انداز کی کئی احادیث ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے انہیں آخری اوقات میں فرمایا ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ کہیں ہمیں علم چھپانے کا گناہ نہ ہو۔ دراصل ان احادیث میں اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ اور اعمال خیر پر انتہائی اجر عظیم کا ذکر آیا ہے۔ جس سے عام لوگوں کے لئے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ چند ایک بار کے عمل پر تکیہ کر بیٹھیں گے اور پھر بے عمل ہو جایئں گے۔ اس لئے ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ان کو کھلے عام بیان نہیں فرمایا بلکہ اپنے آخری اوقات میں کتمان علم (علم چھپانے) کے گناہ کے خوف سے بیان کیا۔ لہٰذا علماء اور وعاظ کو بھی ایسی احادیث خاص علمی حلقات اور دانا لوگوں کی مجالس ہی میں بیان کرنی چاہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 563