سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
67. باب الإِمَامِ يَقُومُ مَكَانًا أَرْفَعَ مِنْ مَكَانِ الْقَوْمِ
باب: امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 598
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو خَالِدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِالْمَدَائِنِ فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَتَقَدَّمَ عَمَّارٌ وَقَامَ عَلَى دُكَّانٍ يُصَلِّي وَالنَّاسُ أَسْفَلَ مِنْهُ، فَتَقَدَّمَ حُذَيْفَةُ فَأَخَذَ عَلَى يَدَيْهِ فَاتَّبَعَهُ عَمَّارٌ حَتَّى أَنْزَلَهُ حُذَيْفَةُ، فَلَمَّا فَرَغَ عَمَّارٌ مِنْ صَلَاتِهِ، قَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: أَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا أَمَّ الرَّجُلُ الْقَوْمَ فَلَا يَقُمْ فِي مَكَانٍ أَرْفَعَ مِنْ مَقَامِهِمْ"، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، قَالَ عَمَّارٌ: لِذَلِكَ اتَّبَعْتُكَ حِينَ أَخَذْتَ عَلَى يَدَيَّ.
عدی بن ثابت انصاری کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ وہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدائن میں تھا کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو عمار آگے بڑھے اور ایک چبوترے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھانے لگے اور لوگ ان سے نیچے تھے، یہ دیکھ کر حذیفہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور عمار بن یاسر کے دونوں ہاتھ پکڑ کر انہیں پیچھے لانے لگے، عمار بن یاسر بھی پیچھے ہٹتے گئے یہاں تک کہ حذیفہ نے انہیں نیچے اتار دیا، جب عمار اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو حذیفہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے نہیں سنا کہ جب کوئی شخص کسی قوم کی امامت کرے تو ان سے اونچی جگہ پر کھڑا نہ ہو؟ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: اسی لیے جب آپ نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں آپ کے ساتھ پیچھے ہٹتا چلا گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3396) (حسن)» ‏‏‏‏ (اس کا جتنا حصہ پچھلی حدیث کے موافق ہے اتنا اس سے تقویت پاکر درجہ حسن تک پہنچ جاتا ہے باقی باتیں سند میں ایک مجہول راوی (رجل) کے سبب ضعیف ہیں اس میں امام عمار رضی اللہ عنہ کو اور کھینچنے والا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بنا دیا ہے)

قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 598  
´امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عدی بن ثابت انصاری کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ وہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدائن میں تھا کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو عمار آگے بڑھے اور ایک چبوترے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھانے لگے اور لوگ ان سے نیچے تھے، یہ دیکھ کر حذیفہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور عمار بن یاسر کے دونوں ہاتھ پکڑ کر انہیں پیچھے لانے لگے، عمار بن یاسر بھی پیچھے ہٹتے گئے یہاں تک کہ حذیفہ نے انہیں نیچے اتار دیا، جب عمار اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو حذیفہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے نہیں سنا کہ جب کوئی شخص کسی قوم کی امامت کرے تو ان سے اونچی جگہ پر کھڑا نہ ہو؟ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: اسی لیے جب آپ نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں آپ کے ساتھ پیچھے ہٹتا چلا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 598]
598۔ اردو حاشیہ:
➊ امام اور مقتدیوں کو ایک ہی سطح پر ہوناچا ہیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک بار منبر پر کھڑے ہو کر نماز پڑھائی تھی، تو اس میں مقصد تعلیم تھا۔ گویا کسی مقصد یا ضرورت کے پیش نظر امام کو بلند مقام پر یا امتیازی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا پڑے تو بلا کراہت جائز ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے: [صحيح بخاري، باب الصلوة فى السطوح والمنبر و الخشب، حديث: 377]
➋ نماز میں کوئی واضح غلطی ہو رہی ہو اور اس کی بر موقع اصلاح ممکن ہو تو کر دینی چاہیے اور وہ اصلاح قبول بھی کر لینی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 598