سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
86. باب فِي كَمْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ
باب: عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟
حدیث نمبر: 639
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ قُنْفُذٍ، عَنْ أُمِّهِ، أَنَّهَا سَأَلَتْ أُمَّ سَلَمَةَ: مَاذَا تُصَلِّي فِيهِ الْمَرْأَةُ مِنَ الثِّيَابِ؟ فَقَالَتْ:"تُصَلِّي فِي الْخِمَارِ وَالدِّرْعِ السَّابِغِ الَّذِي يُغَيِّبُ ظُهُورَ قَدَمَيْهَا".
ام حرام والدہ محمد بن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟ تو انہوں نے کہا: وہ اوڑھنی اور ایک ایسے لمبے کرتے میں نماز پڑھے جو اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو چھپا لے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 18291)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة الجماعة 10(36) (ضعیف موقوف)» ‏‏‏‏ (محمد بن زید بن قنفذ کی ماں أم حرام مجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف موقوف
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 163  
´شرائط نماز کا بیان`
«. . . وعن أم سلمة رضي الله عنها أنها سألت النبي صلى الله عليه وآله وسلم: أتصلي المرأة في درع وخمار بغير إزار؟ قال: إذا كان الدرع سابغا يغطي ظهور قدميها . . . .»
. . . سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ (کیا) کوئی عورت تہبند کے بغیر محض کرتے اور اوڑھنی میں نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کرتا اگر اتنا لمبا ہو کہ قدم کی پشت تک پہنچ جاتا ہے تو جائز ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب شــروط الصلاة: 163]

لغوی تشریح:
«دِرْع» دال کے نیچے کسرہ اور را ساکن ہے، قمیص۔
«سَابِغًا» اتنی لمبی چوڑی اور فراخ کہ پورے جسم کو ڈھانپ لے۔
«يُغَطِّي» «تَغْطِيَة» سے ماخوذ ہے۔ پردہ پوشی کرتا ہو، ڈھانپتا ہو
«ظُهُورِ قَدَمَيْهِ» پاؤں کا اوپر والا حصہ۔ پاؤں کی بالائی سطح۔

فوائد ومسائل:
➊ مذکورہ روایت ضعیف ہے، تاہم دیگر صحیح روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت نماز میں اپنا جسم ڈھانپے کیونکہ اسے سر سمیت سارا جسم ڈھانپنے کا حکم ہے جیسا کہ حدیث نمبر [ابوداود: 641، بلوغ المرام: 161] میں گزر چکا ہے۔
➋ دوسری بات جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ عورت اپنے پاؤں کی پشت کو ڈھانپے۔ اس کی بابت علمائے محققین لکھتے ہیں کہ اگر اس روایت کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی نماز کی حالت میں عورت کے لیے پیروں کا ڈھانپنا ضروری نہیں، اس کو زیادہ سے زیادہ پردے کے عمومی حکم کے اعتبار سے بہتر کہا جا سکتا ہے۔ بعض علماء پاؤں کی پشت کے ڈھانپنے کے لیے ترمذی کی حدیث [1713] سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے جواب میں فرمایا کہ اگر عورت کے پاؤں مردوں کے لباس سے ایک بالشت زیادہ لٹکانے پر ننگے رہتے ہوں تو وہ ایک ہاتھ زیادہ لٹکا لیا کریں۔ اس سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ نماز میں عورت کو پاؤں کی پشتوں سمیت اپنا پورا جسم ڈھانپ کر رکھنا چاہیے لیکن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق پردے کے عمومی حکم سے ہے، نمازی عورت کے لیے بھی اسے ضروری قرار دینا محل نظر ہے۔ اس طرح تو پھر نماز پڑھتے وقت عورت کے لیے چہرے کو ڈھانپنا بھی ضروری قرار دینا پڑے گا کیونکہ پردے کے حکم میں عورت کا چہرہ بھی شامل ہے۔ اگر عورت کے لیے نماز کی حالت میں چہرہ ڈھانپنا ضروری نہیں ہے تو پھر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نماز کی حالت میں پیروں کی پشت کے ڈھانپنے کو بھی ضروری قرار دینا غلط ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتاويٰ شيخ الاسلام ابن تيميه: 426/11۔ 430، طبع جديد، 1889، الرياض]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 163