سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
91. باب الصَّلاَةِ فِي النَّعْلِ
باب: جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 650
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ السَّعْدِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَاءِ نِعَالِكُمْ؟ قَالُوا: رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السلام أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا، أَوْ قَالَ: أَذًى، وَقَالَ: إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَنْظُرْ، فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَوْ أَذًى فَلْيَمْسَحْهُ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے جوتوں کو اتار کر انہیں اپنے بائیں جانب رکھ لیا، جب لوگوں نے یہ دیکھا تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں) انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا: تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتار لیے؟، ان لوگوں نے کہا: ہم نے آپ کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے: «قذرا» کہا، یا: «أذى» کہا، اور فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان میں نجاست لگی ہوئی نظر آئے تو اسے زمین پر رگڑ دے اور ان میں نماز پڑھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4362)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/20، 92)، سنن الدارمی/الصلاة 103 (1418)، (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 170  
´شرائط نماز کا بیان`
«. . . وعن أبي سعيد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا جاء أحدكم المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه أذى أو قذرا فليمسحه وليصل فيهما . . .»
. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی مسجد میں آئے تو (مسجد میں داخل ہونے سے پہلے) اسے چائیے کہ (اپنی جوتی) دیکھ لے۔ اگر اپنی جوتی میں گندگی یا ناپاک چیز لگی ہوئی دیکھے تو اسے چائیے کہ اسے صاف کرے اور اس میں نماز پڑھ لے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب شــروط الصلاة: 170]

لغوی تشریح:
«أَذًي» طبیعت جس سے اذیت محسوس کرے۔
«قَذَرًا» طبائع جسے گندہ تصور کریں اور اس سے نفرت کریں۔ مراد اس سے نجاست و گندگی ہے۔
«أَذًي أَوْ قَذَرًا» راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے «أَذًي» کا لفظ استعمال کیا تھا یا «قَذَرًا» کا۔ معنی دونوں کے ایک ہی ہیں، یعنی نجاست۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ جوتے پاک صاف ہوں۔
➋ جوتے پر لگی ہوئی نجاست کو رگڑ کر صاف کرنے سے جوتا پاک اور صاف ہو جاتا ہے۔
➌ حدیث کے بظاہر الفاظ سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ نجاست خشک ہو یا تر دونوں کا حکم یکساں ہے۔
➍ اس ارشاد نبوی کا سبب یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے جوتا پہنے ہوئے نماز ادا فرمائی۔ آپ کو اس کا علم نہیں تھا کہ جوتا ناپاک ہے اور اس کے نیچے گندگی اور نجاست لگی ہوئی ہے۔ دوران نماز ہی میں جبریل امین علیہ السلام نے آپ کو مطلع فرمایا کہ آپ کے جوتے نجاست سے آلودہ ہیں۔ آپ نے نماز ہی میں جوتے اتار دیے اور نماز جاری رکھی۔ مقتدیوں نے بھی فعل نبوی کی اتباع میں اپنے جوتے اتار دئیے اور نماز پڑھتے رہے۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے صحابہ سے جوتے اتارنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ ہم نے آپ کی اتباع میں جوتے اتارے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جوتا اتارنے کی وجہ بتائی۔ [مسند أحمد 203، و سنن أبى داود، الصلاة، باب الصلاة فى النعل، حديث: 650]
➎ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نمازی کو اگر نماز کے آغاز کے وقت اس کا علم نہ ہو سکا ہو کہ اس کے کپڑے یا جوتے وغیرہ پر نجاست لگی ہوئی ہے اور دوران نماز میں کسی طرح علم ہو جائے تو وہ اس ناپاک چیز کو اسی حالت میں اتار کر نماز کو پورا کر لے تو نماز بالکل صحیح ہو گی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 170   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 650  
´جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے جوتوں کو اتار کر انہیں اپنے بائیں جانب رکھ لیا، جب لوگوں نے یہ دیکھا تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں) انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا: تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتار لیے؟، ان لوگوں نے کہا: ہم نے آپ کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے۔‏‏‏‏ راوی کو شک ہے کہ آپ نے: «قذرا» کہا، یا: «أذى» کہا، اور فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان میں نجاست لگی ہوئی نظر آئے تو اسے زمین پر رگڑ دے اور ان میں نماز پڑھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 650]
650۔ اردو حاشیہ:
➊ جوتے پہن کر یا اتار کر، نماز پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، اگر جوتے پہنے ہوں تو ان کا پاک ہونا شرط ہے اور انہیں پاک کرنے کے لیے خشک زمیں پر رگڑ لینا ہی کافی ہے۔
➋ نمازی اکیلا ہو اور اپنے جوتوں کو اپنے پہلو میں رکھنا چاہتا ہو تو اپنی بائیں جانب رکھے، مگر جب صف میں ہو تو اپنے پاؤں کے درمیان میں رکھے۔
➌ نجاست آلود جوتے یا کپڑے میں نماز جائز نہیں۔ اثنائے نماز میں اسے دور کرنا ممکن ہو تو اسے دور کر دے، ورنہ نماز چھوڑ دے اور نجاست دور کرے۔
➍ لاعلمی میں جو نماز نجس کپڑے یا جوتے میں پڑھی جا چکی ہو تو وہ صحیح ہے، اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
➎ جوتوں میں نماز تمام احادیث کی روشنی میں ایک درست عمل ہے، اس کا ثواب کی کمی بیشی سے کوئی تعلق نہیں۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی خبریں جبریل امین کے ذریعے سے بتائی جاتی تھیں۔
➐ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع، افعال عبادت میں اسی طرح ضروری ہے جیسے کہ اقوال میں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خصوصیت اور خوبی یہی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی اتباع میں کوئی پس و پیش نہ کرتے تھے اور ہر مسلمان کو ایسے ہی ہونا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 650