سنن ابي داود
تفرح أبواب الصفوف -- ابواب: صف بندی کے احکام ومسائل
96. باب تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ
باب: صفوں کو درست اور برابر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 666
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَافِقِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، وَحَدِيثُ ابْنِ وَهْبٍ أَتَمُّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ قُتَيْبَةُ: عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، عَنْ أَبِي شَجَرَةَ، لَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عُمَرَ أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَقِيمُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ وَلِينُوا بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ، لَمْ يَقُلْ عِيسَى: بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ، وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ، وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو شَجَرَةَ كَثِيرُ بْنُ مُرَّةَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَمَعْنَى وَلِينُوا بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ: إِذَا جَاءَ رَجُلٌ إِلَى الصَّفِّ فَذَهَبَ يَدْخُلُ فِيهِ فَيَنْبَغِي أَنْ يُلِينَ لَهُ كُلُّ رَجُلٍ مَنْكِبَيْهِ حَتَّى يَدْخُلَ فِي الصَّفِّ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (قتیبہ کی روایت میں جسے انہوں نے ابوزاہریہ سے، اور ابوزاہریہ نے ابوشجرہ (کثیر بن مرہ) سے روایت کیا ہے، ابن عمر کا ذکر نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنی صفیں درست کرو، اور اپنے کندھے ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اور (صفوں کے اندر کا) شگاف بند کرو، اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو، جو شخص صف کو ملائے گا، اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا، اور جو شخص صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے کاٹ دے گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «لينوا بأيدي إخوانكم» کا مطلب ہے کہ جب کوئی شخص صف کی طرف آئے اور اس میں داخل ہونا چاہے تو ہر ایک کو چاہیئے کہ اس کے لیے اپنے کندھے نرم کر دے یہاں تک کہ وہ صف میں داخل ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الإمامة 31 (820)، (تحفة الأشراف: 7380، 19235)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/97) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: جس نے صف کو ملایا۔ یعنی جو نماز کی صف میں حاضر ہوا، اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر کھڑا ہوا، اس میں کوئی خلا یا کجی پیدا نہ کی تو اس کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے کہ اللہ اس کو اپنی رحمت خاص سے ملائے، اور جس نے صف کو کاٹا یعنی مذکورہ امور کے برعکس کیا تو اللہ اس کو اپنی رحمت سے محرم رکھے۔ بھائیوں کے لیے نرم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ صفیں درست کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ خوش دلی سے تعاون کیا جائے۔ آگے پیچھے ہونے کے معاملے میں وہ جو کہیں مان لیا جائے اور ناراض نہ ہوا جائے، نیز یہ معنی بھی ہیں کہ اگر صف میں جگہ ممکن ہو تو دوسرے ساتھی کو جگہ دی جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 666  
´صفوں کو درست اور برابر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (قتیبہ کی روایت میں جسے انہوں نے ابوزاہریہ سے، اور ابوزاہریہ نے ابوشجرہ (کثیر بن مرہ) سے روایت کیا ہے، ابن عمر کا ذکر نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنی صفیں درست کرو، اور اپنے کندھے ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اور (صفوں کے اندر کا) شگاف بند کرو، اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو، جو شخص صف کو ملائے گا، اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا، اور جو شخص صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے کاٹ دے گا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: «لينوا بأيدي إخوانكم» کا مطلب ہے کہ جب کوئی شخص صف کی طرف آئے اور اس میں داخل ہونا چاہے تو ہر ایک کو چاہیئے کہ اس کے لیے اپنے کندھے نرم کر دے یہاں تک کہ وہ صف میں داخل ہو جائے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 666]
666۔ اردو حاشیہ:
جس نے صف کو ملایا۔ یعنی جو نماز کی صف میں حاضر ہوا، اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر کھڑا ہوا، اس میں کوئی خلا یا کجی پیدا نہ کی، تو اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعا ہے کہ اللہ اس کو اپنی رحمت خاص سے ملائے۔ اور جس نے صف کو کاٹا یعنی مذکورہ امور کے برعکس کیا تو اللہ اس کو اپنی رحمت سے محروم رکھے۔
بھائیوں کے لیے نرم ہونے۔ کے معنی یہ ہیں کہ صفیں درست کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ خوش دلی سے تعاون کیا جائے۔ آگے پیچھے ہونے کے معاملے میں وہ جو کہیں مان لیا جائے اور ناراض نہ ہوا جائے، نیز یہ معنی بھی ہیں کہ اگر صف میں جگہ ممکن ہو تو دوسرے ساتھی کو جگہ دی جائے، خیال رہے کہ جگہ نہ ہو تو اس میں گھسنے کی کوشش پہلے سے کھڑے ہوئے بھائیوں کو تنگ کرنا ہے جو کسی طرح روا نہیں۔
➌ امام کو تکبیر تحریمہ سے پہلے حسب ضرورت ان الفاظ سے نصیحت کرتے رہنا چائیے اور عملاً بھی صف درست کرانی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 666